آذربائیجان میں حجاب پر پابندی اور سماجی بحث
25 جنوری 2011اس گاؤں میں سڑکوں پر لگے پوسٹروں پر قرآنی پیغامات اور احکامات لکھے نظر آتے ہیں جبکہ مقامی دکانوں پر شراب بھی فروخت نہیں کی جاتی۔ اسی گاؤں میں ابھی حال ہی میں سینکڑوں افراد نے اس لیے ایک بڑا احتجاجی مظاہرہ بھی کیا تھا کہ وہاں اسکول جانے والی بچیوں کو ایک متنازعہ فیصلے کے تحت سر پر رومال باندھ کر اسکول جانے سے منع کر دیا گیا تھا۔
اس فیصلے کے بعد اس گاؤں میں تعمیر ایک بلند و بالا مسجد کے نمازیوں نے گزشتہ ماہ احتجاج کرتے ہوئے ملکی وزیر تعلیم کی ایک تصویر کو آگ بھی لگا دی تھی۔ انہوں نے اعلان کیا تھا کہ وہ اپنی بچیوں کو حجاب پہننے سے منع کرنے کی بجائے اپنی جان دے دینا زیادہ پسند کریں گے۔ آذربائیجان کا یہ گاؤں ملکی دارالحکومت باکو کے مضافات میں واقع ہے۔
وسطی ایشیا کی اس ریاست میں، جس کی آبادی کی اکثریت شیعہ مسلمانوں پر مشتمل ہے، گزشتہ برس طالبات کو باقاعدہ طور پر منع کر دیا گیا تھا کہ وہ حجاب پہن کر اسکولوں میں نہ جائیں۔ ساتھ ہی حکام نے اس بارے میں بھی نئے احکامات جاری کر دیے تھے کہ طلبا و طالبات کو کس طرح کی یونیفارم پہن کر اسکول آنا چاہیے۔
ماضی کی اشتراکی ریاست سوویت یونین کی تقسیم کے بعد وجود میں آنے والا آذربائیجان ایک ایسا خود مختار ملک ہے، جو پوری اسلامی دنیا میں بہت زیادہ سیکولر ملکوں میں شمار کیا جاتا ہے۔
اس حوالے سے آذربائیجان کے وزیر تعلیم مردانوف نے ابھی حال ہی میں کہا تھا کہ آذربائیجان ایک سیکولر ملک ہے اور وہاں تعلیمی اداروں میں طلبا و طالبات کو کس طرح کے لباس میں اسکول آنا چاہیے، یہ بات تعلیم سے متعلق ملکی قوانین میں واضح طور پر درج ہے۔ اس سلسلے میں مردانوف نے یہ بھی کہا تھا کہ ہائی اسکولوں میں زیر تعلیم بچوں اور بچیوں کو مروجہ ضابطوں کا احترام کرنا چاہیے اور یہ قانون پسندی کسی بھی طرح اسلامی عقائد کے منافی نہیں ہے۔
آذربائیجان میں نارداران کے دیہی باشندوں کی اکثریت کے برعکس پورے ملک میں ایسے شہریوں کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے، جو یہ دلیل دیتے ہیں کہ ان کے ملک کو، جو پہلے ہی سیکولر ہے، مزید ترقی کے لیے جدید تر سوچ اپنانی چاہیے اور کسی کو بھی تعلیمی شعبے سمیت معاشرے کو مکمل اسلامی رنگ دینے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔
لیکن جہاں تک نارداران نامی گاؤں یا آذربائیجان کے ایسے ہی دیگر دیہات اور قصبوں کا تعلق ہے تو بہت سے والدین تعلیمی شعبے میں طلبا و طالبات پر یونیفارم سے متعلق نئی پابندیوں پر بہت ناخوش ہیں۔ اس کی ایک مثال حکمت علییف نامی شخص کی ہے جو نارداران ہی کا رہنے والا ہے۔ حکمت، جس کی اپنی بچیاں بھی اسکول جاتی ہیں، کا کہنا ہے کہ حجاب پر پابندی بنیادی مذہبی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔
نارداران کی مقامی مسجد کے امام عدالت علی زادے کے بقول حجاب پر پابندی کی صورت میں حکومت ’خدائی قانون‘ میں مداخلت کی جو کوششیں کر رہی ہے، ان کے باعث باعقیدہ شہری ریاست کے ساتھ تضاد کی صورت حال کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔ عدالت علی زادے کے مطابق، ’میں کوئی سیکولر شہری نہیں بننا چاہتا۔ میں ایک مذہبی انسان ہوں۔‘
نارداران کے امام مسجد عدالت علی زادے کی طرح پورے آذربائیجان میں ایسے شہریوں اور والدین کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے، جو یہ کہتے ہیں کہ وہ مقامی ریاستی قوانین کا احترام تو کریں گے، لیکن جہاں یہ قوانین مذہبی احکامات اور ضابطوں سے متصادم ہوں گے، وہاں ایسے شہری مذہبی قوانین پر عمل پیرا رہنے کو ترجیح دیں گے۔
حجاب سمیت مذہبی ضابطوں کے ریاستی قوانین سے متصادم ہونے کے باعث شروع ہونے والی یہ وہ بحث ہے، جو اس وقت آذربائیجان میں جگہ جگہ دیکھنے میں آ رہی ہے۔ فی الحال یہ بحث بہت جلد ختم ہوتی نظر نہیں آتی۔
رپورٹ: عصمت جبیں
ادارت: مقبول ملک