1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستآرمینیا

آذری آرمینیائی تنازعہ علاقائی جنگ بن سکتا ہے، ایرانی صدر

7 اکتوبر 2020

ایرانی صدر حسن روحانی نے تنبیہ کی ہے کہ آذربائیجان اور آرمینیا کے مابین مسلح تنازعہ پھیل کر ایک علاقائی جنگ بن سکتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ شام اور لیبیا سے جنگجوؤں کا نگورنو کاراباخ بھیجا جانا ناقابل قبول ہے۔

https://p.dw.com/p/3jY6n
نگورنو کاراباخ کے علیحدگی پسند علاقے میں آرمینیائی توپ خانے سے آذربائیجان کے دستوں پر کیے جانے والے حملوں کی ایک تصویرتصویر: Defence Ministry of Armenia/Reuters

ایرانی دارالحکومت تہران سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق صدر حسن روحانی نے بدھ سات اکتوبر کے روز سرکاری ٹیلی وژن سے نشر ہونے والے اپنے ایک بیان میں کہا کہ آذربائیجان اور آرمینیا کے مابین مسلح لڑائی کے پھیل کر ایک علاقائی جنگ بن جانے کے خطرے کا تدارک کیا جانا چاہیے۔

صدر روحانی نے یہ بات اس پس منظر میں کہی کہ آذربائیجان اور آرمینیا دونوں ہی ایران کے ہمسایہ ممالک ہیں اور ایسی خبریں بھی ہیں کہ نگورنو کاراباخ میں لڑنے کے لیے شام اور لیبیا سے جنگجوؤں کو وہاں بھیجا جا چکا ہے۔ یہ الزام خاص طور پر آرمینیا کی طرف سے لگایا جا رہا ہے۔

نگورنو کاراباخ، ہیڈ اسکارف، ہاتھوں میں بندوق: جنگ کیا ہوتی ہے؟

صدر روحانی نے کہا، ''ہمیں اس بات پر پوری توجہ دینا ہو گی کہ یہ تنازعہ ایک علاقائی جنگ بن کر پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں نہ لے لے۔ ہماری کوششوں کا محور امن ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ خطے میں امن و استحکام کی بحالی کے لیے امن کا راستہ اپنایا جائے۔‘‘

Bergkarabach Armenien und Aserbaidschan im Krieg um die umstrittene Region Berg-Karabach
عشروں پرانے اس تنازعے میں دوبارہ شروع ہونے والی تازہ لڑائی میں اب تک سینکڑوں افراد مارے جا چکے ہیںتصویر: Brendan Hoffman/Getty Images

’ہماری سرحدوں کے پاس بھیجے جانے والے دہشت گرد‘

ایرانی صدر روحانی نے کہا کہ تہران حکومت کبھی اس بات کی اجازت نہیں دی گی کہ 'دیگر ممالک مختلف بہانوں سے دہشت گردوں کو ہماری قومی سرحدوں کے قریبی علاقوں میں بھیجیں‘۔

مسلم علاقے پر مسيحی عليحدگی پسندوں کا قبضہ، آذربائيجان اور آرمينيا کے مابین شدید لڑائی

حسن روحانی نے یہ بات ان دعووں کے تناظر میں کہی کہ اس تنازعے میں آذربائیجان کے حلیف ملک ترکی نے مبینہ طور پر شام اور لیبیا سے بہت سے ترک نواز ملیشیا جنگجوؤں کو نگورنو کاراباخ میں لڑنے کے لیے آذربائیجان بھیجا ہے۔ ترکی اپنے خلاف ایسے الزامات کو بے بنیاد قرار دے کر مسترد کرتا ہے۔

روسی ایرانی وزرائے خارجہ کی بات چیت

قبل ازیں منگل چھ اکتوبر کو ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے اپنے روسی ہم منصب سیرگئی لاوروف کے ساتھ گزشتہ چند روز کے دوران دوسری مرتبہ ٹیلی فون پر بات چیت کی تھی، جس میں اس حوالے سے گہری تشویش ظاہر کی گئی تھی کہ نگورنو کاراباخ کے تنازعے میں مبینہ طور پر شام اور لیبیا سے آنے والے جنگجو بھی شامل ہوتے جا رہے ہیں۔

آرمینیا، آذربائیجان کے مابین شدید جھڑپیں، اب تک 240 ہلاکتیں

اس گفتگو کے بعد ماسکو میں روسی وزارت خارجہ نے بھی اس حوالے سے گہری تشویش کا اظہار کیا تھا کہ آذربائیجان کے علیحدگی پسند خطے نگورنو کاراباخ کا تنازعہ تیزی سے غیر معمولی شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔

ایرانی صدر کی آذری ہم منصب علییف سے گفتگو

ایران کو اپنے ہمسائے میں نگورنو کاراباخ کے تنازعے کی وجہ سے پھیلتی جا رہی کشیدگی پر کتنی تشویش ہے، اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ صدر حسن روحانی نے کل منگل کے روز اپنے آذری ہم منصب الہام علییف سے بھی فون پر بات چیت کی تھی۔

ترکی نے چار ہزار شامی جنگجو آذربائیجان بھیجے، آرمینیا کا الزام

اس بات چیت میں روحانی نے زور دے کر کہا تھا کہ تہران کا پرزور مطالبہ ہے کہ اس کے ہمسایہ ممالک کی جغرافیائی وحدت ہر حال میں برقرار رہے اور علاقائی امن و استحکام کے لیے کوششیں بھی جاری رہیں۔ اس گفتگو میں ایرانی صدر نے آذری ہم منصب علییف پر واضح کر دیا تھا کہ تہران کی سب سے بڑی ترجیح علاقائی امن کا تحفظ ہے۔

م م / ا ا (روئٹرز، اے ایف پی)