آزاد فلسطینی ریاست تسلیم کی جائے، فرانسیسی پارلیمان کا حکومت سے مطالبہ
3 دسمبر 2014پیرس میں فرانسیسی پارلیمان کے ایوان زیریں میں رائے شماری کے ذریعے منظور کی گئی اس علامتی قرارداد کا مقصد مشرق وسطیٰ میں قیام امن کی کوششوں کی حوصلہ افزائی ہے۔ خبر رساں ادارے اے پی نے سیاسی ماہرین کے حوالے سے بتایا ہے کہ پیرس حکومت اس قرارداد پر عمل درآمد کی پابند نہیں اور اس سے فرانس کے موجودہ سفارتی موقف پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ تاہم اس سے فرانسیسی ارکان پارلیمان کی طرف سے فلسطینی عوام کی حمایت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ منگل کی شام رائے شماری کے دوران اس قرارداد کے حق میں 339 ووٹ پڑے جبکہ 151 ممبران نے اس کی مخالفت کی۔
یہ امر اہم ہے کہ برطانیہ، آئرلینڈ اور اسپین میں پہلے ہی اس طرح کی قراردادیں منظور کی جا چکی ہیں جبکہ سویڈش پارلیمان نے تیس اکتوبر کو رائے شماری کے بعد فلسطین کو باقاعدہ طور پر ایک آزاد ریاست تسلیم بھی کر لیا تھا۔ بتایا گیا ہے کہ یورپی ممالک میں اس طرح کے اقدامات سے مشرق وسطیٰ کا بحران ختم کرنے کے عمل میں تیزی پیدا ہو سکتی ہے۔
فرانس کی سوشلسٹ حکومت مشرق وسطیٰ میں قیام امن کے لیے دو ریاستی حل کی حمایت کرتی ہے تاہم اس نے کہہ رکھا ہے کہ اس مخصوص وقت پر فلسطین کو ایک آزاد ریاست تسلیم کرنا قبل از وقت ہو گا۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل رکن ملک فرانس کی کوشش ہے کہ اس مسئلے کے حل کے لیے فریقین پہلے امن مذاکرات کا سلسلہ بحال کریں۔ فرانس یورپ کا ایک ایسا ملک ہے، جہاں مسلمانوں اور یہودیوں کی ایک بڑی تعداد بستی ہے، اسی لیے مشرق وسطیٰ میں قیام امن کا معاملہ وہاں ایک انتہائی حساس موضوع خیال کیا جاتا ہے۔
اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے خبردار کر رکھا ہے کہ فلسطین کو اس طرح ایک آزاد ریاست تسلیم کر لینا ’ایک سنگین غلطی‘ ثابت ہو گا۔ اسرائیلی حکومت آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے حق میں ہے لیکن اس کے مطابق یہ معاملہ ایک امن معاہدے کے تحت طے پانا چاہیے، جس کے لیے باقاعدہ مذاکراتی عمل بھی مکمل کیا جانا چاہیے۔ نیتن یاہو کے بقول یورپی ممالک کی طرف سے اس طرح کی قراردادوں کی وجہ سے فلسطینی حکام مذاکراتی عمل کو نظر انداز کر سکتے ہیں۔
اسرائیلی وزارت خارجہ کی طرف سے اس پیشرفت پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا ہے، ’’ہمیں یقین ہے کہ اس طرح کے اقدامات سے فلسطینی اپنی پوزیشن میں سخت گیر ہو جائیں گے، جس سے فلسطینیوں اور دیگر علاقائی رہنماؤں کو غلط پیغام جائے گا۔‘‘ اس بیان میں زور دیا گیا ہے کہ قیام امن کا واحد راستہ مذاکراتی عمل ہے۔
ادھر فلسطینی صدر محمود عباس نے فرانسیسی ایوان زیریں میں منظور کی گئی اس قرارداد کو ’باہمت اور حوصلہ افزا‘ قدم قرار دیا ہے۔ اسرائیل سے مذاکرات کی مخالف عسکریت پسند فلسطینی تنظیم حماس کے ترجمان سامی ابو زہری نے ایسوسی ایٹڈ پریس سے گفتگو کرتے ہوئے اس پیشرفت کو اپنے ’قومی حقوق‘ کے حصول کی طرف درست قدم قرار دیا ہے۔
اسرائیل کے اہم اتحادی ملک امریکا نے اس فرانسیسی قرارداد پر اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے مذاکرات ناگزیر ہیں۔ امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی ایک ترجمان نے واشنگٹن میں صحافیوں کو بتایا، ’’اس مسئلے کے حل کے لیے اطراف کے مابین براہ راست مذاکرات ضروری ہیں۔‘‘ واشنگٹن حکومت بھی اسرائیلی فلسطینی تنازعے کے دو ریاستی حل کی حامی ہے۔