آسٹریا میں ’دہشت گردانہ‘ حملہ، چار افراد ہلاک متعدد زخمی
3 نومبر 2020آسٹریا میں وزارت داخلہ کے ایک بیان کے مطابق دارالحکومت ویانا میں یہودیوں کی ایک عبادت گاہ، سیناگوگ، کے پاس ہونے والے حملے میں اب تک کم از کم چارافراد کی ہلاکت کی تصدیق ہو گئی ہے جبکہ 15 دیگر متاثرین کا ہسپتالوں میں علاج کیا جا رہا ہے۔ وزیر داخلہ کارل نیہامر نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ اس واقعے میں بھاری ہتھیاروں سے لیس ایک حملہ آور بھی جوابی کارروائی میں مارا گیا ہے جبکہ ایک حملہ آور اب بھی مفرور ہے۔
یہ حملہ مقامی وقت کے مطابق پیر دو نومبر کی شام کو ہوا۔ ملک کے وزیر داخلہ نے عوام سے گھروں سے باہر نہ نکلنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ ''ایک طویل عرصے کے بعد آسٹریا کو اتنا سخت دن دیکھنا پڑا ہے۔'' ان کا کہنا تھا کہ منگل کے روز بچوں کو اسکول جانے کی ضرورت نہیں ہے۔
اس سے قبل ویانا میں محکمہ پولیس نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا تھا کہ ابتداء میں حملے کے مرکزی مقام پر زبردست فائرنگ کی گئی، ''شہر کے چھ مقام پر بھاری ہتھیاروں سے مسلح مشتبہ افراد موجود تھے۔'' حکام کے مطابق جن 15 افراد کو ہسپتال میں بھرتی کیا گیا ہے ان میں سے سات افراد شدید زخمی ہوئے ہیں۔
گھناؤنا حملہ
آسٹریا کے چانسلر سیباستیان کرس نے اسے دہشتگردانہ حملہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ دارالحکومت ویانا میں فی الوقت فوج ایسے حساس مقامات کی نگرانی کرے گی تاکہ پولیس انسداد دہشتگردی جیسے آپریشن پر زیادہ توجہ مبذول کر سکے۔
انہوں نے اپنے ایک ٹویٹ پیغام میں لکھا، ''ہم اپنی جمہوریہ میں اس وقت مشکل گھڑی سے گزر رہے ہیں۔ میں اپنی سکیورٹی فورسز کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گا، خاص طور پر آج کے دن، جنہوں نے اپنی جان جوکھم میں ڈال کر ہمارے تحفظ کو یقینی بنایا۔ ہماری پولیس اس گھناؤنے دہشتگردانہ حملے میں ملوث افراد کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کرے گی۔''
حکام نے اس حملے کے تناظر میں عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ انٹرنیٹ پر فوٹو یا پھر ویڈیوز پوسٹ کرنے سے گریز کریں کیونکہ اس سے پولیس کے ساتھ ہی عام شہریوں کو بھی خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔
آسٹریا میں یہودی برادری کے سربراہ آسکر ڈوئچ نے اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا کہ ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ حملے کے دوران فائرنگ کے ذریعے سیناگوگ کو نشانہ بنایا گیا کہ نہیں تاہم جب یہ واقعہ پیش آیا تو سیناگوگ اور اس کے آس پاس کے سبھی دفاتر بند تھے۔
ویانا میں ڈی ڈبلیو کے نامہ نگار اسٹیو شائڈ کا کہنا ہے کہ اس وقت شہر کے ہر جانب سکیورٹی کا پہرہ ہے۔ پولیس حکام عوام کو آگاہ کر رہے ہیں کہ حملہ آور اب بھی مفرور ہیں اور ان کی تلاش کے لیے علاقوں کی تلاشی لی جا رہی ہے۔ عوام سے اپیل کی جا رہی ہے کہ وہ گھروں کے اندر ہی رہیں۔'' شہر میں فائرنگ کا یہ واقعہ ایک ایسے وقت پیش آیا جب کورونا وائرس کی وجہ سے نصف شب سے لاک ڈاؤن نافذ ہونے والا تھا اور شاید یہی وجہ تھی کہ لوگ بڑی تعداد میں باہر نکلے تھے۔
یورپیئن یکجہتی
یورپی ممالک کے متعدد رہنماؤں نے اس دہشتگردانہ حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ فرانس کے صدر ایمانوئل ماکروں نے اپنی ٹویٹ میں لکھا، ''ہم ویانا میں حملے کے بعد آسٹریا کے صدمے اور دکھ کو شیئر کرتے ہیں۔ یہ ہمارا یورپ ہے۔ ہمارے دشمنوں کو یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ وہ کس کے ساتھ معاملات کر رہے ہیں۔ ہم کسی کے سامنے جھکنے والے نہیں ہیں۔''
یورپی کمیشن کی صدر ارزولا فان ڈیر لائن نے بھی اپنے ایک بیان میں آسٹریا کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ''ویانا میں ہونے والے وحشیانہ حملے سے میں حیرت زدہ اور غمزدہ ہوں۔ میرےجذبات متاثرین کے اہل خانہ اور آسٹریا کے عوام کے ساتھ ہیں۔ یورپ مکمل طور پر آسٹریا کے ساتھ یکجہتی میں کھڑا ہے۔ ہم نفرت اور دہشت سے کہیں زیادہ مضبوط ہیں۔''
جرمن وزارت خارجہ نے بھی اپنی ایک ٹویٹ میں ویانا میں ہونے والے حملے پر گہرے صدمے اور مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ بیان میں کہا گیا، ''آج شام ہم تک خوفناک، پریشان کن خبریں پہنچتی رہیں۔ گرچہ ابھی تک دہشت گردی کس حد تک ہے اس کا پتہ نہیں چل سکا ہے، تاہم ان مشکل گھڑیوں میں ہم زخمیوں اور متاثرین کے ساتھ ہیں۔ ہمیں ان نفرتوں کے لیے کوئی راستہ نہیں چھوڑنا ہے جس کا مقصد ہمارے معاشروں کو تقسیم کرنا ہے۔''
اقوام متحدہ کی مذمت
اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انٹونیوگوٹیرش کی جانب سے جاری ایک بیان میں بھی ویانا حملوں کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی ہے۔ ''سکریٹری جنرل ان حملوں کی پرزور انداز میں مذمت کرتے ہیں اور اقوام متحدہ کی جانب سے آسٹریا کی عوام اور حکومت ساتھ مکمل یکجہتی کا اعادہ کرتے ہیں۔''
دریں اثنا پڑوسی ملک چیک ریپبلک نے ویانا میں حملوں کے تناظر میں حفاطتی تدابیر کے طور پر اپنے ملک میں بھی یہودی عبات گاہوں کی نگرانی بڑھا دی ہے۔ چیک ریپبلک کی وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ اس کی پولیس اس معاملے میں آسٹریا کے محکمہ پولیس کے ساتھ رابطے میں ہے۔
ص ز / ج ا (اے پی، اے ایف پی، ڈی پی اے، روئٹڑز)