آسٹریا میں صدارتی انتخابات کے نتائج منسوخ
1 جولائی 2016خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے بتایا ہے کہ بائیس مئی کو منعقدہ آسٹریا کے صدارتی انتخابات کے نتائج کو کالعدم قرار دیتے ہوئے عدالت نے کہا کہ 78 ہزار ووٹوں کی مناسب طریقے سے جانچ پڑتال نہیں کی گئی تھی، جس کی وجہ سے صدارتی انتخابات کا انعقاد دوبارہ کرایا جائے۔
آسٹریا کی تاریخ میں اس طرح کا فیصلہ پہلی بار سامنے آیا ہے، جس کے بعد ستمبر یا اکتوبر میں اس ملک میں ایک بار پھر صدارتی انتخابات منعقد کروائے جائیں گے۔
بائیس مئی کے انتخابات میں دائیں بازو کے اُمیدوار نوربرٹ ہوفر بائیں بازو کی جانب جھکاؤ رکھنے والے امیدوار الیگزانڈر فان ڈیئر بَیلَین سے اکتیس ہزار ووٹوں کے معمولی فرق سے ہار گئے تھے۔
ناقدین کے مطابق دوبارہ الیکشن کرانے کا یہ عدالتی فیصلہ دائیں بازو کی جماعت فریڈم پارٹی کے لیے ایک بڑی کامیابی کی حیثیت رکھتا ہے، جس نے انتخابات کے دوران بے قاعدگیوں کا حوالہ دیتے ہوئے انتخابات کے نتائج کو چیلنج کیا تھا۔
مہاجرین مخالف اس سیاسی پارٹی نے دعویٰ کیا تھا کہ ایسے ووٹروں کے ووٹ مناسب طریقے سے نہیں پرکھے گئے، جو اپنے آبائی حلقوں میں نہیں تھے یا جنہوں نے پوسٹ کے ذریعے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا تھا۔
عدالت کو اگرچہ کسی الیکشن فراڈ کے شواہد نہیں ملے لیکن چودہ اضلاع میں اٹہتر ہزار غیر حاضر ووٹروں کے بیلٹ پیپزر میں بے ضابطگی نظر آئی ہے۔
آسٹریا کی وفاقی آئینی عدالت کے سربراہ گیرپارڈ ہولزنگر نے اس عدالتی فیصلہ کا دفاع کرتے ہوئے کہا، ’’ (الیکشن کے عمل کے دوران ووٹوں سے ) کسی حقیقی چھیڑ چھاڑ کے شواہد ملنے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ کورٹ کا فرض ہے کہ اگر الیکشن کے دوران کسی فراڈ کا شبہ بھی ہو تو وہ دوبارہ الیکشن کرانے کا حکم صادر کر دے۔
کورٹ کا یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے، جب سوشل ڈیموکریٹ صدر ہائنز فشر کی دوسری مدت صدارت آئندہ ہفتے ختم ہو رہی ہے۔
چونکہ ابھی تک فشر کا کوئی پیشرو نہیں ہے، اس لیے پارلیمان کی صدارتی کمیٹی عارضی طور پر فشر کی ذمہ داریاں سنبھال لے گی۔ ہوفر پارلیمان میں نائب صدر ہیں، اس لیے وہ اس کمیٹی کا حصہ ہوں گے۔