آسٹریا میں پناہ کے نئے قوانین پر اقوام متحدہ کی تشویش
12 مئی 2016نیوز ایجنسی روئٹرز کی ویانا سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے کمشنر زید رعد الحسین نے اپنے ایک انٹرویو میں آسٹریا میں سیاسی پناہ کے نئے قوانین کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
جرمنی اور اٹلی نئی امیگریشن پالیسی پر متفق
یورپی کمیشن نے سیاسی پناہ کے نئے قوانین تجویز کر دیے
انتہائی متنازعہ قرار دیے جانے والے ان نئے قوانین کو آسٹرین پارلیمان نے بدھ ستائیس اپریل کے روز رائے شماری کے ذریعے منظور کر لیا تھا۔ نئے قوانین کے تحت ویانا حکومت پناہ گزینوں کے بحران کو بنیاد بنا کر ملک میں ایمرجنسی تک نافذ کر سکتی ہے۔ علاوہ ازیں حکومت کو یہ اختیار بھی حاصل ہو گا کہ وہ پناہ کی تلاش میں آسٹریا کی ریاستی حدود میں داخلے کے خواہش مند تارکین وطن کو سرحد پر سے ہی واپس بھیج دے۔
عالمی ادارے کے انسانی حقوق کے کمشنر کا کہنا تھا، ’’ہمیں اس بارے میں تشویش ہے کہ تارکین وطن کو ممکنہ طور پر قابل اعتراض طریقے سے واپس بھیج دیا جائے گا۔‘‘ آسٹریا کی جانب سے ان قوانین کا اطلاق یکم جون سے کیا جا رہا ہے۔ رعد الحسین کا مزید کہنا تھا کہ انہیں اس بات پر بھی تشویش ہے کہ نئے قوانین کے تحت نابالغ مہاجرین کو تین سال تک زیر حراست رکھا جا سکے گا۔ ان کے مطابق ایسا کرنا بچوں کے حقوق کے بارے میں عالمی قوانین کی خلاف ورزی کے مترادف ہو گا۔
’ڈی پریسے‘ نامی ایک اخبار کو دیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں رعد الحسین کا کہنا تھا، ’’آسٹریا ایک طویل عرصے تک عالمی سطح پر انسانی حقوق کا دفاع کرتا رہا ہے۔ آپ جن باتوں کا تقاضا دوسرے ممالک سے کرتے ہیں ان کا اطلاق اپنے ملک میں بھی کرنا چاہیے۔‘‘
یہ قوانین آسٹریا کے سابق چانسلر ویرنر فیمان کے دور اقتدار میں متعارف کرائے گئے تھے جو ان کا دفاع بھی کرتے رہے ہیں۔ فیمان نے پیر کے روز چانسلر کے عہدے کے ساتھ ساتھ اپنی پارٹی کی قیادت سے بھی استعفیٰ دے دیا تھا۔ فیمان اور ان کی اتحادی جماعتوں کو آسٹریا کے قومی انتخابات کے پہلے مرحلے میں دائیں بازو کی سیاسی جماعت فریڈم پارٹی کے ہاتھوں بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
حکمران اتحاد میں شامل جماعتوں نے مشترکہ طور پر فیصلہ کیا ہے کہ فیمان کی جگہ جو بھی آئندہ چانسلر بنے گا، وہ بھی ان نئے قوانین کو لاگو کرنے میں اپنا کردار ادا کرے گا۔