آسٹریا نے سیاسی پناہ کے سخت ترین قوانین متعارف کرا دیے
27 اپریل 2016انتہائی متنازعہ قرار دیے جانے والے ان نئے قوانین کو آسٹرین پارلیمان میں 67 کے مقابلے میں 98 ووٹوں سے منظور کیا گیا۔ نئے قوانین کے تحت ویانا حکومت پناہ گزینوں کے بحران کو بنیاد بنا کر ملک میں ایمرجنسی تک نافذ کر سکتی ہے۔ علاوہ ازیں حکومت کو یہ اختیار بھی حاصل ہو گا کہ وہ پناہ کی تلاش میں آسٹریا کی ریاستی حدود میں داخلے کے خواہش مند تارکین وطن کو سرحد پر سے ہی واپس بھیج دے۔
جرمنی نے 2016ء میں اب تک کتنے پاکستانیوں کو پناہ دی؟
یورپی کمیشن نے سیاسی پناہ کے نئے قوانین تجویز کر دیے
یورپی یونین کے کسی بھی دوسرے رکن ملک میں سیاسی پناہ کے مروجہ قوانین سے کہیں زیادہ سخت ان نئے قوانین کے تحت اس ملک میں جمع کرائی گئی پناہ کی زیادہ تر درخواستیں رد کی جا سکیں گی۔ ان قوانین کا اطلاق خانہ جنگی کے شکار ملک شام اور دیگر شورش زدہ علاقوں سے آنے والے مہاجرین اور تارکین وطن پر بھی ہو گا۔
آسٹریا میں حزب اختلاف کی جماعتوں اور انسانی حقوق کے لیے سرگرم تنظیموں نے تارکین وطن اور مہاجرین کے خلاف منظور کیے گئے ان نئے قوانین پر شدید تنقید کرتے ہوئے انہیں انسانی حقوق کے عالمی کنوینشن کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔
اس کے برعکس آسٹریا کے وزیر داخلہ وولف گانگ سوبوتکا کا ان قوانین کا دفاع کرتے ہوئے کہنا ہے کہ چوں کہ یورپی یونین کے کئی دیگر رکن ممالک تارکین وطن کی تعداد میں کمی لانے میں اپنا کردار ادا نہیں کر پائے، اس لیے آسٹریا کے پاس ایسے قوانین متعارف کرانے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں تھا۔ ان کا مزید کہنا تھا، ’’ہم سارا بوجھ اپنے کندھوں پر نہیں اٹھا سکتے۔‘‘
آسٹریا میں گزشتہ برس 90 ہزار سے زائد تارکین وطن نے پناہ حاصل کرنے کے لیے درخواستیں دی تھیں۔ علاوہ ازیں مغربی اور شمالی یورپ پہنچنے والے گیارہ لاکھ سے زائد تارکین وطن آسٹریا ہی کی حدود سے گزر کر ان یورپی ممالک میں پہنچے تھے۔
نئے قوانین کے مطابق مہاجرین کے بحران کو ملکی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دے کر ایمرجنسی نافذ کی جا سکتی ہے۔ آسٹریا کی حدود میں داخل ہونے اور پناہ کی درخواست دینے کا حق صرف ان تارکین وطن کو دیا جائے گا جن کی جانوں کو آسٹریا کے پڑوسی ممالک میں خطرہ ہو گا۔
پارلیمانی رائے شماری سے پہلے حزب اختلاف کے ایک رکن ماتھیاس شٹرولس کا اس قانون کے بارے میں کہنا تھا، ’’آج جیسا اوزار (قانون) تیار کیا جا رہا ہے، وہ اگر غلط ہاتھوں میں چلا گیا تو انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔‘‘
آسٹریا کی حکومت نے نئے قوانین ایک ایسے وقت پر متعارف کرائے ہیں جب کہ ابھی اتوار کے روز ہی ملک میں منعقد ہونے والے صدارتی انتخابات کا پہلا مرحلہ انتہائی دائیں بازو کی جماعت ’فریڈم پارٹی‘ کے امیدوار نوربرٹ ہوفر نے جیت لیا تھا۔