1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

آسٹریلیا میں آٹھ برس میں پانچواں وزیراعظم

عاطف توقیر14 ستمبر 2015

آسٹریلیا آٹھ برسوں میں اپنا پانچواں وزیراعظم منتخب کرنے کو ہے۔ پیر کے روز حکمران لبرل جماعت نے وزیراعظم ٹوبی ایبٹ پر عدم اعتماد کا اظہار کر کے ان کے حریف کے حق میں رائے دے دی ہے۔

https://p.dw.com/p/1GWJN
Australien Tony Abbott und Malcolm Turnbull von der Liberalen Partei
تصویر: Getty Images/S. Postles

پیر کے روز حکمران آسٹریلوی جماعت لبرل پارٹی نے ٹونی ایبٹ کے طویل عرصے سے حریف میلکم ٹرن بُل کے حق میں رائے دی۔ وہ گزشتہ کئی ماہ سے جماعت کے اندر ٹونی ایبٹ پر شدید تنقید اور اپنے حق میں رائے ہموار کرنے کے لیے سرگرداں تھے۔

ارب پتی سیاست دان اور ٹیکنالوجی کے شعبے کی سابقہ کاروباری شخصیت ٹرن بُل نے جماعت میں ہونے والی خفیہ رائے شماری میں 98 اراکین میں سے 54 کی حمایت حاصل کی، جب کہ ان کے مقابلے میں وزیراعظم ٹونی ایبٹ کو 44 ووٹ ملے۔ لبرل پارٹی کے سربراہ ویپ اسکاٹ نے اس رائے شماری اور نتیجے کا اعلان کینبیرا میں صحافیوں سے بات چیت میں کیا۔

لبرل پارٹی نے وزیرخارجہ جولی بیشپ کو پارٹی کا نائب سربراہ بھی منتخب کر لیا ہے۔ سن 2013ء کے انتخابات میں لبرل پارٹی نے اپنے جونیئر پارٹنر نیشنل پارٹی کے ہمراہ واضح اکثریت سے کامیابی حاصل کی تھی۔

Australien Tony Abbott Premierminister
ٹونی ایبٹ اپنی پارٹی کا اعتماد حاصل کرنے میں ناکام رہےتصویر: picture-alliance/epa/S. Moody

ٹرن بُل نے اس رائے شماری سے قبل صحافیوں سے بات چیت میں کہا کہ وزیراعظم اس اقتصادی رہنمائی میں ناکام ہو چکے ہیں، جس کی متقاضی آسٹریلوی قوم ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ آسٹریلوی عوام ایک مختلف طرز کی قیادت چاہتے ہیں۔

اس رائے شماری سے قبل ٹوبی ایبٹ نے اپنی جماعت کے رہنماؤں سے اپیل کی کہ پارٹی کو اس عدم استحکام سے باہر نکالا جائے، جس کی شکار ان کی جماعت کئی ماہ سے ہے۔ انتخاب کے بعد وہ جماعت کے اجلاس سے باہر نکل گئے اور صحافیوں سے گفتگو سے بھی اجتناب کیا۔

خیال رہے کہ سن 2009ء میں ٹونی ایبٹ نے لبرل پارٹی میں ٹرن بل کو شکست دے کی جماعت کی قیادت اپنے نام کی تھی، تاہم وزارت عظمیٰ کے لیے ٹرن بل کو ہمیشہ سے بہتر امیدوار سمجھا جاتا تھا۔

دائیں بازو کی جماعت سے تعلق کے باوجود ٹرن بل ہم جنس پرستوں کی شادیوں کے حق میں رائے رکھتے ہیں، جس کی وجہ سے انہیں جماعت کے اندر متعدد حلقوں کی جانب سے تنقید کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے۔