آسٹریلیا میں معلق پارلیمان کا امکان
20 اگست 2010آسٹریلیا کے پارلیمانی انتخابات اتوار 21 اگست کو منعقد ہوں گے۔ انتخابی مہم اگرچہ اپنے اختتام پر پہنچ چکی ہے لیکن ملک کی دونوں اہم سیاسی جماعتیں اب بھی عوام پر زور دے رہی ہیں کہ وہ ان انتخابات میں اپنا حق رائے دہی ضرور استعمال کریں۔
تازہ عوامی جائزوں کے مطابق حکمران لیبر پارٹی کی مقبولیت میں کمی واقع ہوئی ہے جبکہ اپوزیشن کے قدامت پسند سیاسی اتحاد کی عوامی حمایت میں اضافہ ہوا ہے۔ اس صورتحال میں ان انتخابات کے نہایت ہی کانٹے دار ہونے کے امکان ظاہر کئے جا رہے ہیں۔
سیاسی مبصرین کے مطابق یہ انتخابات حکمران لیبر پارٹی سے تعلق رکھنے والی آسٹریلیا کی پہلی خاتون وزیر اعظم جولیا گیلارڈ کے لئے نہایت مشکل ثابت ہوں گے۔ قدامت پسند پارٹی کے رہنما ٹونی ایبٹ نے جولیا گیلارڈ پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ سابق وزیراعظم کیون رڈ کی پالیسیوں کا تسلسل براقرار رکھے ہوئے ہیں۔
کیون رڈ رواں سال چوبیس جون کو وزیر اعظم کے عہدے سے اس وقت مستعفی ہو گئے تھے، جب ان پر واضح ہوا تھا کہ وہ نہ صرف اپنی پارٹی بلکہ عوام میں بھی مقبولیت برقرار رکھنے میں ناکام ہو گئے ہیں۔ بعد ازاں ان کی نائب جولیا گیلارڈ کو وزیراعظم کے عہدے پر فائز کیا گیا تھا، جنہوں نے قبل ازوقت انتخابات کروانے کا اعلان کیا۔
جمعہ کو آسٹریلیا کے ایک اخبار میں جاری کردہ سروے کے مطابق ان انتخابات میں جولیا اور ابیٹ کو پچاس پچاس فیصد عوامی حمایت حاصل ہے جبکہ منگل کے ایک عوامی جائزے کے مطابق لیبر پارٹی کو باون فیصد جبکہ اپوزیشن کی لبرل پارٹی کو اڑتالیس فیصد حمایت حاصل ہے۔ کئی سیاسی مبصرین کے مطابق لیبر پارٹی ان انتخابات میں معمولی برتری سے کامیابی حاصل کر سکتی ہے۔
دونوں اہم سیاسی جماعتوں میں سے کسی کو بھی قطعی اکثریت نہ ملنے کی صورت میں گرین پارٹی اور آزاد کامیاب امیدواروں کی اہمیت دوگنا ہو جائے گی، جس سے کئی اہم اقتصادی پالیسیوں میں تبدیلی ممکن ہو سکتی ہے۔ آسٹریلیا کی چالیس فیصد معیشت کا انحصار غیر ملکی سرمایہ کاری پر ہے اور سیاسی عدم استحکام کی صورت میں یہ سرمایہ کاری کم ہو سکتی ہے جس سے آسٹریلوی معیشت کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
ان انتخابات میں ماحولیاتی تبدیلی، معیشت میں بہتری، کان کنی کی صنعت سے متعلق پالیسی میں تبدیلیاں اور امیگریشن جیسے موضوعات اہمیت کا حامل سمجھے جا رہے ہیں۔
رپورٹ: عاطف بلوچ
ادارت: شادی خان سیف