آسٹرین صدارتی الیکشن: بائیں بازو کا مقابلہ عوامیت پسندی سے
4 دسمبر 2016يورپی رياست آسٹريا کے صدارتی انتخابات ميں مہاجرت کے پس منظر سے تعلق رکھنے والے اور گرين پارٹی کے حمايت يافتہ آزاد اميدوار اليگزينڈر فان ڈيئر بيلن کا مقابلہ دائيں بازو کی فريڈم پارٹی سے تعلق رکھنے والے نوربرٹ ہوفر سے ہے۔ برطانيہ کے يورپی يونين سے اخراج يا بريگزٹ اور پھر امريکی صدارتی اليکشن ميں ری پبلکن پارٹی کے ڈونلڈ ٹرمپ کی فتح سے ہوفر کا حوصلہ کافی بلند نظر آتا ہے۔ وہ روس کے ساتھ قريبی تعلقات اور رکن ممالک پر يورپی يونين کے بے انتہا اختيارات کے خلاف آواز اٹھانے کا کہہ چکے ہيں۔ نوربرٹ ہوفر مہاجرين کے بھی سخت ناقد ہيں اور ايک موقع پر انہيں ’قبضہ کرنے والے‘ قرار دے چکے ہيں۔
آسٹريا ميں صدارتی اليکشن کا پہلا مرحلہ مئی ميں منعقد ہوا تھا، جس ميں ہوفر کو بيلن کے ہاتھوں معمولی سے فرق سے شکست ہو گئی تھی۔ تاہم انتخابی عمل ميں بے ضابطگيوں کی وجہ سے پہلے مرحلے کے نتائج مسترد کر ديے گئے تھے۔
دوسرے مرحلے کی رائے شماری کے ليے آسٹريا کے 6.4 ملين شہری ووٹ ڈالنے کے اہل ہيں۔ ووٹنگ کا عمل عالمی مقامی وقت کے مطابق صبح چھ بجے سے شام چار بجے تک جاری رہے گا۔ ابتدائی نتائج رائے شماری مکمل ہونے کے کچھ ہی دير بعد متوقع ہيں۔ انتہائی دائيں بازو کا ’دوستانہ چہرہ‘ کہلائے جانے والے پينتاليس سالہ ہوفر اور بہتر برس کے بيلن کے درميان کانٹے کا مقابلہ ہے۔ مئی ميں بيلن صرف اکتيس ہزار ووٹوں کے فرق سے سرخرو ہوئے تھے۔
آسٹريا ميں مقامی ذرائع ابلاغ پر اليکشن کو ’فيصلے کا دن‘ قرار ديا جا رہا ہے۔ دوسرے مرحلے کی تکميل کے ساتھ ہی قريب گيارہ ماہ تک جاری رہنے والی ايک ايسی انتخابی مہم بھی اپنے اختتام کو پہنچے گی، جس ميں مخالفين نے پوسٹرز ميں ہوفر کو سابقہ جرمن آمر ہٹلر کی مونچھوں کے ساتھ دکھايا تو بيلن کے سياسی حريفوں نے بيلن کو کتے کے فضلے کے ساتھ دکھايا۔ کئی مواقع پر تمام اخلاقی حدیں پار کر دينے والی اس مہم کے سبب مقامی ووٹر اکتائے ہوئے دکھائی ديتے ہيں۔ دونوں صدارتی اميدواروں نے زمينی حقائق اور ووٹروں کی تھکاوٹ کو مد نظر رکھتے ہوئے ہفتے کے روز اپنے اپنے ويڈيو پيغامات ميں ووٹروں سے آخری اپيل بھی کی۔
اگرچہ آسٹريا ميں صدر کا عہدہ محض علامتی ہوتا ہے تاہم اٹھائيس رکنی يورپی يونين اس بارے ميں کافی فکر مند ہے کہ نوربرٹ ہوفر کی ممکنہ کاميابی کی صورت ميں مزيد يورپی ممالک بھی اسی سمت نہ چل بيٹھيں۔ يورپ ميں آئندہ برس فرانس، جرمنی اور ہالينڈ ميں انتخابات ہونے والے ہيں۔ عالمگيريت، کثير الثقافتی معاشرے، بڑھتے ہوئے عدم توازن اور بچتی اقدامات کے سبب يورپ ميں عواميت پسندانہ سوچ اور سياست کو فروغ حاصل ہوا ہے۔