آسیہ بی بی سزائے موت سے بچ سکیں گی؟
7 اکتوبر 2016مسیحی خاتون آسیہ بی بی پانچ بچوں کی والدہ ہیں۔ انہیں سن 2010 میں توہین مذہب کے جرم میں سزائے موت سنائی گئی تھی۔ آسیہ بی بی کے وکیل سیف الملوک نے نیوز اینسی اے ایف پی کو بتایا، ’’جسٹس ثاقب نثار کی قیادت میں سپریم کورٹ تیرہ اکتوبر کو سزائے موت کے خلاف آسیہ بی بی کی اپیل سنے گی، میں پر امید ہوں اور مجھے یقین ہے کہ آسیہ بی بی کو انصاف ملے گا اور وہ اپنے بچوں کے ساتھ اپنی زندگی گزار سکیں گی۔‘‘
'توہین مذہب‘ پاکستان جیسے قدامت پسند معاشرے میں ایک حساس موضوع ہے۔ کوئی بھی شخص جو مذہب اسلام کی توہین کرے اسے مشتعل ہجوم کی جانب سے قتل کیے جانے کا خدشہ رہتا ہے۔ پاکستان میں انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ توہین مذہب کے متنازعہ قانون کا غلط استعمال کیا جاتا ہے اور اکثر لوگ اپنی ذاتی دشمنی میں توہین مذہب کا الزام عائد کر دیتے ہیں۔
آسیہ بی بی پر سن 2010 میں توہین مذہب کا الزام عائد کیا گیا تھا جس کے بعد اسے عدالت نے سزائے موت سنائی تھی۔ ان کے حمایتی افراد کا کہنا ہے کہ آسیہ بی بی نے اسلام کے خلاف بات نہیں کی تھی بلکہ ان کی لڑائی کے واقعہ کو توہین مذہب کا رنگ دے دیا گیا تھا۔
دوسری جانب ممتاز قادری کے حمایتی افراد آسیہ بی بی کی سزائے موت کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ممتاز قادری نے سن 2011 میں لاہور کے سابق گورنر سلمان تاثیر کو اس لیے قتل کر دیا تھا کیوں کہ وہ آسیہ بی بی کی رہائی کا مطالبہ کر رہے تھے۔
انسانی حقوق کے ایک ماہر مصطفیٰ قادری نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا،’’آسیہ بی بی کے حق میں فیصلہ دنیا کو یہ پیغام دے گا کہ پاکستان قانون کو اہمیت دیتا تھا ناکہ کسی ہجوم یا گروہ کو۔‘‘ مصطفیٰ قادری کی رائے میں آسیہ بی بی کے حق میں فیصلے کی صورت میں ممتاز قادری کے حامی افراد احتجاج کریں گے۔ ممتاز قادری کو اس سال کے آغاز میں پھانسی دے دی گئی تھی جس کے بعد بڑی تعداد میں مظاہرین نے آسیہ بی بی کے خلاف سٹرکوں پر نعرے لگائے تھے۔