آمرانہ دور میں آئین میں شامل کردہ شقوں میں تبدیلی کا مطالبہ
5 جنوری 2024سیاست دانوں کی نااہلی سے متعلق ایک کیس کی سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس کا یہ بھی کہنا تھا کہ اصل آئین کا تقدس ترامیم شدہ آئین سے زیادہ ہے۔ سیاست دانوں کا خیال ہے کہ نااہلی کی شقوں سمیت ان تمام آمرانہ قوانین کو ختم کیا جانا چاہیے، جن سے 1973ء کے آئینکے نقشے کو بگاڑا گیا۔
تاہم انسانی حقوق کے کچھ کارکنوں کا خیال ہے کہ جنرل ضیا کی طرف سے کی گئی ترامیم کے صرف اس حصے کو ہی توجہ نہیں دینی چاہیے جو سیاست دانوں سے متعلق ہو بلکہ آئینمیں جو شقیں اقلیتوں اور دوسرے کمزور طبقات کو متاثر کرتی ہیں ان کو بھی ختم کیا جانا چاہیے یا ان میں معنی خیز تبدیلی لائی جانا چاہیے۔
چیف جسٹس نے کیا کہا؟
چیف جسٹس فائز عیسی نے یہ تاثرات ارکان اسمبلی کی نا اہلیت کے حوالے سے ایک مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے دیے، جس میں عدالت کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ نااہلی کی مدت پانچ سال ہے یا تا حیات۔
اس مقدمے کی سماعت ایک سات رکنی لارجر بینچ کر رہا ہے، جس میں چیف جسٹس کے علاوہ جسٹس منصور علی شاہ ، جسٹس یحیٰی آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی شامل ہیں۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا کہ عوامی نمائندوں کی نا اہلی سے متعلق ترامیم کے آرٹیکل 62 ون ایف کو مخصوص حالات میں پارلیمنٹ پر بغیر بحث کے تھوپا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا ہے کہ ایک وسیع تر منظر نامے کو سمجھنے کی ضرورت ہے اور جس انداز میں ان ترامیم کو آئین میں لایا گیا ان کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ان ترامیم کو ایک آمر نے مارشل لا کے دور میں متعارف کرایا۔
سیاست دانوں اور انسانی حقوق کے کارکنان کا خیال ہے کہ جنرل ضیا کے دور یا بعد میں آئین میں کی گئی اُن تمام ترامیم جن سے سیاست دانوں کو نقصان ہوتا ہے انہیں ختم کیا جانا چاہیے۔
معروف سیاست دان اور سابق سینیٹر فرحت اللہ بابر کا کہنا ہے کہ جنرل ضیا کے دور میں آئین کو مسخ کیا گیا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' صادق و امین کی شقیں، حدود ارڈیننس اور شریعت کورٹ سمیت کئی ایسی چیزیں ہیں جو جنرل ضیا نے ایگزیکٹیو آرڈرز کے ذریعے آئین میں داخل کیں، جنہوں نے آئین کا حلیہ بگاڑا۔‘‘
فرحت اللہ بابر کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی نے 18ویں ترمیم کی منظوری کے دوران صادق و امین والی شقوں کو ختم کرنے کی کوشش کی تھی۔ ان کا کہنا تھا، ''کیونکہ اس کا اطلاق نہ تو ججوں پہ ہوتا ہے اور نہ ہی جرنیلوں پر، محض سیاست دانوں پر ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے ہم اس کو ختم نہیں کر سکے۔‘‘
سیاسی شقوں سے آگے
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی سابق چیئر پرسن زہرہ یوسف کا کہنا ہے کہ سیاست دانوں کو نہ صرف آئین کی آرٹیکل 62 ون ایف کو ختم کرنا چاہیے بلکہ انہیں ان شقوں کے بارے میں بھی سوچنا چاہیے جو اقلیتوں، خواتین اور دوسرے کمزور طبقات کے حوالے سے امتیازی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ''میرے خیال میں آئین کی یہ شق جس کے تحت ایک غیر مسلم صدر یا وزیراعظم نہیں بن سکتا اس کو دیکھا جانا چاہیے۔ اس کے علاوہ توہین رسالت کے قانون پر بھی نظر ثانی کرنی چاہیے جس میں جنرل ضیا کے دور میں ترمیم ہوئی اور بعد میں آنے والی حکومتوں نے بھی اس میں مزید ترمیم کی۔‘‘
ن لیگ نے نا اہلی والی شقوں کو بچایا
اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے کورٹ رپورٹر حسنات ملک کا کہنا ہے کہ صادق اور امین کے شق کو سیاست دانوں کے خلاف استعمال کیا گیا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اٹھارویں ترمیم کے دوران جب اس شق کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی تو نون لیگ نے اس کی مخالفت کی۔ نون لیگ سمجھ رہی تھی کہ اس کی تلوار صرف پیپلز پارٹی پہ گرے گی لیکن پھر اسی شق کے تحت نواز شریف کو نا اہل قرار دیا گیا۔‘‘
سیاست دانوں کا اتفاق ہونا چاہیے
حسنات ملک کے مطابق نہ صرف صادق اور امین والی اس شق کو ختم کیا جانا چاہیے۔ ''بلکہ نیب اور وہ تمام دوسرے قوانین جو سیاست دانوں کے خلاف استعمال ہوتے ہیں ان کے خلاف تمام سیاسی جماعتوں کا اتفاق رائے ہونا چاہیے اور مستقبل کی پارلیمنٹ کو اس کو ختم کرنا چاہیے۔‘‘
ہم ان شقوں کا دفاع کرتے ہیں
تاہم پاکستان تحریک انصاف نااہلی سے متعلق ان شقوں کا دفاع کرتی ہے۔ پی ٹی آئی کے رہنما شعیب شاہین نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہم نااہلی سے متعلق شقوں کا دفاع کرتے ہیں۔ ہمارے خیال میں کرپشن روکنے کے لیے اس طرح کی شقوں کا ہونا ضروری ہے۔ تاہم ہم یہ ضرور کہتے ہیں کہ ان شقوں کا غلط استعمال روکا جائے۔‘‘