میں یہ خط آپ کو کسی نئی تحقیق سے آگاہ کرنے کے لیے نہیں لکھ رہی ہوں۔ میں آپ کو کسی دوا يا سپلیمنٹ کے بارے میں نہیں بتانا چاہتی، نہ ہی کسی تھیراپی کا کہ کیسے کسی بچے کی زندگی میں کوئی بڑی تبدیلی آ سکتی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آپ کے بچے کی تشخیص سے لے کر آج تک آپ یہ سب بہت سن چکے ہیں۔ یہ میں خط آپ کے لیے لکھ رہی ہوں کیونکہ آپ اکثر اپنے آپ کو خود بھول جاتے ہیں۔
سی ڈی سی کی تحقیق کے مطابق ساری دنیا میں تقریباً ہر ایک سو میں سے ایک فرد آٹزم کا شکار ہے۔ معمولی سے لے کر انتہائی درجے کا آٹزم لوگوں میں پایا جاتا ہے۔ ترقی کے باوجود اس کی کوئی ٹھوس وجہ نہیں مل سکی اور نہ ہی علاج ایجاد ہوا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تمام تر تکنیکی ترقی که بعد سائنس ٹیکنالوجی اور تمام تحقیق یہاں آ کر فیل ہوجاتی ہے۔
تمام بیماریوں کا علاج تو خیر دنیا میں نہیں پایا جاتا مگر بہت سی معذوریوں کے لیے کسی نہ کسی حد تک کوئی مدد ضرور دریافت ہو چکی ہے۔ جسمانی چیلنج کی صورت میں وہیل چیئر، آلہ سماعت، کوئی خاص عینک وغیرہ موجود ہیں مگر ذہنی معذوری کے لیے کچھ ایسا نہیں ایجاد ہوا، جس سے کوئی مدد ہو سکے۔ ذہن کی سست ڈیویلپمنٹ ہو یا کوئی اور بھی عارضہ طب اور سائنس کچھ خاطر خواہ حاصل نہیں کر پائی۔ آٹزم کو بیماری نہیں بلکہ ذہن کا مختلف ہونا سمجھا جاتا ہے، جس کا زیادہ انحصار ارد گرد کے لوگوں کے برتاؤ اور رویوں پر ہوتا ہے۔ اس لیے اپنے بچے کی زندگی میں آپ کی سب سے زیادہ اہمیت ہے اور والدین کا خود جسمانی اور ذہنی طور پر فٹ رہنا انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔
آج سے تقریباً سات سال قبل جب میرے بیٹے میں آٹزم تشخیص ہوا تو تمام والدین کی طرح میرے بھی وہی خدشات اور سوالات تھے کہ کیا میرا بیٹا مجھے کبھی ماں کہہ کر پکار سکے گا؟ کیا وہ عام بچوں کے ساتھ سکول جائے گا ؟ کیا وہ کبھی ٹائلٹ ٹرین ہو جائے گا؟ کیا وہ بولے گا، کیا کبھی کوئی فرمائش کرے گا؟ کیا میں کبھی اس کی پسند ناپسند جان پاؤں گی؟ اور یہی وہ وقت تھا کہ جو بھی سنتا مجھے کچھ نہ کچھ پڑھنے اور دیکھنے کو بھیج دیتا۔ کبھی کوئی ہمت بندھتی اور کبھی معلومات کا یہ سیلاب مجھے چکرا دیتا۔ ایسا لگتا تھا کہ کسی کو آٹزم کا لفظ سنائی یا دکھائی دیتا ہے وہ مجھے سب انفارمیشن بھیج دیتا ہے یہ سوچے سمجھے بغیر که میرے بیٹے کی سمجھ کا کیا لیول ہے اور وہ سپیکٹرم میں کہاں آتا ہے؟ مجھے اس میں کوئی شک نہیں کہ سب لوگ میری ہمدردی میں ایسا کر رہے تھے مگر کاش سب رشتے دار دوست احباب اتنا وقت اور توانائی یہ سرچ کرنے میں صرف کریں کہ وہ والدین کی کیا مدد دے سکتے ہیں اور کسی طرح ان کی زندگی میں کوئی آسانی لا سکتے ہیں۔
تمام خدشات، افکار، سوالات اور ہدایات لے کر والدین جب اس کٹھن سفر پر نکل پڑتے ہیں تو آہستہ آہستہ بالكل ایسا محسوس ہوتا ہے، جو ہم نے کتابوں میں پڑھا تھا۔ مولانا رومی جنہیں ایک عظیم دانشور اور معلم مانا جاتا ہے، جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کے پاس ہر سوال کا جواب اور ہر مسئلے کا حل تھا۔ ان کی ملاقات جب شاہ شمس تبریز سے ہوئی تو انہیں ایسا لگا جیسے کسی نے ان سے ان کی لغت چھین کر دور پھینک دی ہے کیونکہ پیار محبت ایثار قربانی اور بے لوث خدمات کے معنی تو اس سے کہیں گہرے تھے، جو انہوں نے سمجھ رکھے تھے۔ ہمارے معصوم فرشتے بھی شاید شمس تبریز جیسے درویش کی ہی حیثیت رکھتے ہیں، جنہیں مادی دنیا سے کوئی سروکار نہیں اور ہمیں وہ روز ایک نیا درس دیتے ہیں۔ ہمارے چھوٹے چھوٹے سوالات وقت کے ساتھ بڑی بڑی پریشانیوں میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔
اگر بچے نے باہر ہاتھ چھڑوا لیا تو کیا ہوگا؟ اگر ہماری غیر موجودگی میں کسی اور کو سمجھ نہ آیا کہ بچہ کیا چاہ رہا ہے ؟ پانی دیکھ کر بچہ چھلانگ لگا دیتا ہے اور کبھی مضر صحت چیز منہ میں ڈال لیتا ہے۔ کبھی بھوک پیاس یا کسی تکلیف کا اظہار نہ کرنے کی وجہ سے گھبرا کر بس رونے لگتا ہے اور ماں باپ کے سوا کسی سے کنٹرول نہیں ہو پاتا اور وہ خود کو یا کسی اور کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ اکثر اوقات بچوں کو آٹزم کے ساتھ کوئی اور عارضه بھی ہوتا ہے، جیسا کہ اے ڈی ایچ ڈی، مرگی یا ذہنی سستی وغیرہ اس طرح آزمائش کے ساتھ پورے خاندان کی زندگی بہت مشکل ہو جاتی ہے، جب والدین کو مسلسل ذہنی اور جسمانی مشقت کرنی پڑتی ہے۔
اگر بچہ بڑی عمر تک ڈائپر پہنتا ہو تو یہ بذات خود سب سے بڑا چیلنج ہے، جو صرف والدین ہی سمجھ سکتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں'' کیئر گور برن آؤٹ‘‘ ایک عام بات ہے، جس کا ادراک کرنا بہت ضروری ہے، یعنی جب انسان ذہنی، جسمانی اور جذباتی طور پر اتنا تھک جائے کہ صحت متاثر ہونے لگے۔
اسی لیے والدین کو بھی خود کو ترجیح دینا انتہائی ضروری ہے۔ آپ اپنی جسمانی اور ذہنی صحت دونوں کا خود خیال رکھیں۔ اگر آپ اپنے خاندان کی مدد سے اپنے لیے وقت نکال سکتے ہیں تو ضروری نکالیں۔ اگر آپ پاکستان سے باہر خاندان سے دور ہیں مگر کسی تربیت یافتہ قابل بھروسہ مدد کی خدمات لے سکتے ہیں، تو ضرور لیں۔ وہ سب کریں، جس سے آپ کو خوشی ملتی ہے۔ اگر کسی تیسرے کی مدد ناممکن ہے تو ماں باپ باری باری اپنے دوستوں کے ساتھ کہیں باہر جانے کا پلان کریں۔ اگر آپ کے اور بچے بھی ہیں تو ان کی خوشیاں اور بچپن قربان نہ ہونے دیں۔ اگر آپ تنہا ایسے بچے کی پرورش کر رہے ہیں تو اپنا اور بھی زیادہ خیال کریں۔ جس پر اعتبار کر سکتے ہیں اس کی مدد سے کبھی انکار نہیں کریں چاہیے آپ کو صرف آدھے گھنٹے کی بریک میسر ہی کیوں نا ہو ضرور قبول کریں۔
وہ مہنگا جوڑا ضرور پہنیں، جسے آپ نے کسی خاص تقریب کے لیے رکھا ہوا ہے۔ وہ خاص برتن جو آپ نے دعوت پر باہر نکالنے تھے مگر حالات نے کبھی میزبانی کی اجازت ہی نہیں دی وہ برتن اپنے لیے استعمال کرکے لطف اندوز ہوں۔ ان بچوں کو عام طور پر نیند کی بہت سی مشکلات رہتی ہیں اور ماں باپ زیادہ تر نیند کے فقدان کا شکار رہتے ہیں۔ اس لیے جہاں جب جتنا ممکن ہو اپنی نیند پوری کریں۔ گھر کی صفائی یا کھانا پکانا ملتوی کرکے سو سکتے تو سو جائیں۔ اگر آپ کو لگتا ہے کہ کوئی باہر والا آپ کو جج کر رہا ہے تو کرنے دیں اور مزید سکون سے سوئیں۔ زندگی اس دن آسان ہو جاتی ہے جب ہم غیرمتعلقہ لوگوں کی باتوں کو سنجیدگی سے دل پر لینا چھوڑ دیتے ہیں۔
آٹسٹک بچے دیکھنے میں بالکل عام بچوں جیسے معصوم اور پیارے نظر آتے ہیں۔ اس لیے اکثر لوگ ان کے شور کرنے، چیخنے چلانے پر والدین کو الزام دیتے ہیں کہ شاید بچہ بد تمیز ہے یا بچے کو بے دھڑک پاگل قرار دے دیتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لیے خاص طور پر مگر مچھ کی کھال پہن لیں اور بالکل پرواہ نہیں کریں۔ جس نے آپ کی دن رات کی جدوجہد نہیں دیکھی، آپ کی جسمانی، جذباتی اور مالی قربانی نہیں دیکھی اسے آپ پر تبصرہ کرنے کا کوئی حق نہیں اور نہ ہی آپ کو کوئی صفائی دینے کی ضرورت ہے۔
جہاں ممکن ہو انکلوسو سوسائٹی بنانے پر بات ضرور کریں اور آگاہی پھیلانے کا ذریعہ بنیں۔ اس کے ساتھ ساتھ نقالوں سے بھی ہوشیار رہیں۔ کوئی نہ کوئی تھیراپی اور کوئی نیا آلہ مارکیٹ میں آتا رہتا ہے، جس کی ویڈیوز وائرل ہوتی ہیں اور لوگ مجبور والدین کی امیدیں نچوڑ کر پیسہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔
حقیقت یہی ہے کہ زندگی کسی کتابچے کے ساتھ نہیں آتی اور ہر ایک کی زندگی میں آزمائش ضرور ہے۔ جلد یا بدیر چھوٹی یا بڑی کوئی نہ کوئی مشکل موجود رہتی ہے۔ کسی نے چھوٹی عمر میں والدین کو کھونے کا دکھ دیکھا ہے، کسی نے اولاد کے چھن جانے کا۔ کوئی تنہا ہے تو کوئی مالی پریشانی کا شکار، کوئی خود کسی جان لیوا مرض میں مبتلا ہے اور کوئی اولاد کی بیماری جھیل رہا ہے۔ ہر ایک کو اپنی آزمائش بڑی لگتی ہے۔
اپنے اس سفر کو ہر ممکن آسان کریں اور اپنے لیے خوشی اور آرام کو ترجیج بنائیں۔ ضرورت پڑنے پر نفیساتی مدد اور تھیراپی سے نہ گھبرائیں۔ آپ کو خوش اور پر سکون دیکھ کر آپ کے بچے کی آنکھوں میں بھی چمک آتی اور اس کی یہ خوشی اظہار کے لیے الفاظ کی محتاج نہیں رہتی۔
دعا گو
آپ جیسی ہی ایک ماں
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔