آٹھ سالہ بش دور حکومت، ایک میزانیہ
20 جنوری 2009دنیا کے بیشتر ممالک میں انہیں قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا۔ امریکہ میں بھی ان کی مقبولیت کم ہو چکی ہے۔ ان حالات میں تاریخ میں صدر بش کا مقام کیا ہوگا؟
امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کا عہد اب تمام ہوا۔ لیکن عراق اور افغانستان کی جنگ ابھی جاری ہے۔ امریکہ اپنی اقتصادی تاریخ کے بدترین مالیاتی بحران سے نکل نہیں پایا۔ ملکی بجٹ کا خسارہ بھی ایک ٹرلین ڈالر کو چھو رہا ہے۔ ان حالات میں امریکہ ہو یا کوئی اور ملک، کہیں بھی صدر بش سے محبت کون کرے گا۔ مؤرخین اسی بات پر پریشان ہیں کہ کیا جارج ڈبلیو بش امریکہ کے بدترین صدور میں سے ایک ہیں، کیا انہیں ہربرٹ ہُور، وارن ہارڈنگ اور جیمز بیوخنین کے ساتھ شمار کیا جا سکتا ہے، یہ بحث جاری ہے۔
ابھی زیادہ دن نہیں گزرے کہ صدر بش نے کہہ دیا تھا، تاریخ انہیں اچھے الفاظ میں یاد کرے گی۔ لیکن اس کے ساتھ ہی وہ اپنی ان مایوسیوں پر بھی پردہ نہیں ڈال سکے کہ عراق میں وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار نہیں ملے۔ اپنے آخری ٹیلی ویژن خطاب میں انہوں نے کہا: "جو مجھ سے پہلے اس عہدے پر فائز رہے، ان سب کی طرح مجھے بھی دھچکوں کا سامنا کرنا پڑا اور ایسی چیزیں بھی ہیں، مجھے موقع ملے تو میں انہیں مختلف طریقے سے کروں۔ لیکن میں نے ہمیشہ ملکی مفاد کو پیش نظر رکھا۔"
جارج ڈبلیو بش کے عہد صدارت میں کچھ محاذ ایسے ضرور رہے ہیں جہاں ان کی پالیسیوں کو سراہا گیا ہے۔ ان میں بھارت کے ساتھ امریکہ کے زیازہ مضبوط تعلقات، چین کوبین الاقوامی سطح پر زیادہ تعمیری کردار ادا کرنے کی تحریک دینا اور افریقہ میں ایڈز کے خلاف کوششیں شامل میں ہیں۔
بش انتظامیہ کے سر اس بات کا سہرا بھی ہے کہ 2001 کے بعد امریکی سرزمین پر کوئی دہشت پسندانہ حملہ نہیں ہوا۔ پھر بھی بعض اسکالرز کہتے ہیں کہ جارج بش کے عہد صدارت پر کوئی بھی تبصرہ قبل ازوقت ہوگا۔ تاہم بعض حلقے ان کے بارے میں رائے قائم کر چکے ہیں۔ امریکی ریاست پینسلوینیا میں گیٹیزبرگ کالج سے وابستہ ماہرسیاسیات شرلے این کہتی ہیں:"کیا کسی کو ابھی بھی شک ہے کہ یہ عہدصدارت بدترین نہیں تھا۔"
گیارہ ستمبر 2001 کو امریکی سرزمین پر دہشت پسندانہ حملوں کے بعد صدر بش کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں وسیع پیمانے پر عوامی پذیرائی حاصل ہوئی تھی۔ تاہم وہ اس حمایت کو برقرار نہیں رکھ پائے۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں حکمت عملی نے صدر بش کو دنیا بھر میں رسوا کرایا تو سمندری طوفان کترینا کے بعد ناقص امدادی کارروائیوں، ملکی بازار حصص میں تاریخی مندی اور بے روزگاری کی بڑھتی ہوئی شرح ملک کے اندر بھی ان کی مقبولیت کی شرح کو لے ڈوبی۔ صدر بش کی ریپبلیکن جماعت کو ملک کے اندر اس صورت حال کا خمیازہ 2008 کے صدارتی انتخابات میں شکست کی صورت میں بھگتنا پڑا۔ یوں امریکی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی سیاہ فام کے لئے وائٹ ہاؤس کے دروازے کھل گئے۔
جارج ٹاؤن یونیورسٹی سے وابستہ ماہر سیاسیات اسٹیفن وین کا کہنا ہے کہ صدر بش کی ناقص پالیسیاں نہ ہوتیں تو کم از کم ابھی کسی افریقی نژاد امریکی کا عہدہ صدارت تک پہنچنا ناممکن نظر آتا تھا۔
تاریخ جارج ڈبلیو بش کے بارے میں کچھ بھی کہے، یہ بات طے ہے کہ جہاں ان کی پالیسیوں کے بدترین اثرات کا ذکر ہوگا وہیں ان کے ایسے قدر دان بھی ہوں گے جو ان پالیسیوں کا مثبت تذکرہ کرتے رہیں گے۔