آپريشن ’ضرب عضب‘ کا اگلا مرحلہ جنوبی پنجاب ميں؟
1 فروری 2016آٹھ جون سن 2014 کے روز پاکستان کے جنوبی شہر کراچی کے بين الاقوامی ہوائی اڈے پر متعدد دہشت گردوں نے حملہ کر ديا تھا، جسے اب بھی ملکی تاريخ ميں کسی انتہائی سکيورٹی والی تنصيب پر سب سے بڑا حملہ قرار ديا جاتا ہے۔ حملے اور پھر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جوابی کارروائی ميں دس حملہ آوروں سميت مجموعی طور پر چھتيس افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ کالعدم تنظيم تحريک طالبان پاکستان نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
اس حملے کے رد عمل ميں پاکستانی فوج نے افغان سرحد سے متصل قبائلی علاقے شمالی وزيرستان ميں چودہ جون 2014ء کے دن سے شدت پسند عناصر کے خلاف باقاعدہ آپريشن شروع کيا۔ اس آپريشن کا نام پيغمبر اسلام کی تلوار کے نام پر رکھا گيا۔ اس عسکری کارروائی کے مقاصد ميں علاقے کو دہشت گردوں سے پاک کرنا اور ان کی پناہ گاہوں اور ٹھکانوں کو ختم کرنا تھا۔ پچھلی ايک دہائی ميں دہشت گردانہ واقعات ميں جاں بحق ہونے والے عام شہریوں کی تعداد تقريباً ساٹھ ہزار بتائی جاتی ہے۔
’ضرب عضب‘ کے آغاز کے تقريباً ڈيڑھ برس بعد فوج کا دعویٰ ہے کہ اب تک 3,400 دہشت گردوں کو ہلاک کيا جا چکا ہے۔ فوجی ادارے انٹر سروسز پبلک ريليشنز (ISPR) کے دسمبر 2015ء ميں جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ اٹھارہ ماہ ميں شدت پسندوں کی 837 پناہ گاہوں کو تباہ کيا جا چکا ہے جبکہ ملک بھر ميں انٹيليجنس کی بنياد پر کُل 13,200 چھاپے مارے گئے۔ اس دوران 183خطرناک دہشت گرد مارے گئے اور 21,193 کو گرفتار کر ليا گيا۔ آئی ايس پی آر کے مطابق اس دوران 488 فوجی جاں بحق ہوئے جبکہ 1,914 زخمی ہو چکے ہيں۔
پاک فوج کا دعویٰ ہے کہ دہشت گرد عناصر کے خلاف کارروائيوں ميں اُسے ’بے پناہ کاميابی‘ حاصل ہوئی ہے ليکن اِس کے باوجود پہلے گزشتہ برس دسمبر ميں پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر حملہ اور پھر حال ہی ميں چارسدہ کی باچا خان يونيورسٹی پر حملے جيسے واقعات بدستور جاری ہيں۔
کيا فوج مخصوص گروپوں کے خلاف ہی کارروائی کرتی ہے؟
امريکا کی يونيورسٹی آف اوکلاہوما ميں انٹرنيشنل افيئرز کے اسسٹنٹ پروفيسر اور پاکستان ميں عسکری سرگرميوں پر نظر رکھنے والے ايک ماہر عقيل شاہ کے مطابق شدت پسندی سے نمٹنے کے ليے کسی بھی حکمت عملی کی کاميابی کا دار و مدار فوج کی نيت پر ہوتا ہے۔ ڈی ڈبليو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’آرمی نے تحريک طالبان پاکستان کے متعدد دشمن دھڑوں کے خلاف کارروائی تو کی تاہم فوج اب بھی ديگر جنگجو گروپوں کو بھارت جيسے روايتی حريف ممالک کے خلاف ’پراکسی‘ کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔‘‘ عقيل شاہ نے حقانی نيٹ ورک اور افغان طالبان کی مثال دی، جنہيں ان کے مطابق افغانستان میں اثر و رسوخ برقرار رکھنے کے ليے استعمال کيا جاتا ہے اور لشکر طيبہ يا جماعت الدعوۃ، جو بھارت میں کارروائیاں کرتی ہیں۔
اس کے برعکس پاکستانی دفاعی تجزيہ نگار اعجاز حيدر کا کہنا ہے کہ حقانی نيٹ ورک کے خلاف کارروائی نہ کرنے کی وجہ افغان طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کو ممکن بنانا ہے۔ ڈی ڈبليو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتايا، ’’افغان طالبان کے رہنما ملا اختر منصور نے حقانی نيٹ ورک کے رہنما سراج الدين حقانی کو اپنے ساتھ ملا ليا ہے۔ اب ايسی صورت ميں يا تو پاکستانی افواج ملا اختر منصور کو مذاکرات پر آمادہ کر سکتی ہيں، ایسی صورتحال ميں حقانی ان کے ہمراہ ہو گا۔ يا پھر حقانی نيٹ ورک کے خلاف کارروائی کی جا سکتی ہے، اس صورت میں افغان امن مذاکرات سرے سے ہوں گے ہی نہيں۔‘‘ حيدر کے بقول بين الاقوامی برادری پاکستان سے يہ توقع نہيں رکھ سکتی کہ وہ بيک وقت يہ دونوں کام کرے۔ دفاعی تجزيہ نگار اعجاز حيدر کے بقول پاکستانی وزير اعظم نواز شريف نے اپنے پچھلے دورہٴ امريکا ميں واشنگٹن حکام کو يہی بات سمجھانے کی کوشش کی تھی۔ انہوں نے مزيد کہا کہ حقانی نيٹ ورک کے زيادہ تر ارکان پاک سرزمين پر موجود نہيں اور وہ افغانستان منتقل ہو چکے ہيں۔
دہشت گردانہ حملے جاری، وجہ کيا؟
پاکستانی اور بين الاقوامی تجزيہ نگار ضرب عضب کو جزوی طور پر کامياب قرار ديتے ہيں، جس کی بنيادی وجہ يہ ہے کہ فوج اب شمالی وزيرستان کے بيشتر حصے پر قابض ہے اور دہشت گردوں کی زیادہ تر پناہ گاہيں تباہ کی جا چکی ہيں۔ ليکن عقيل شاہ کا کہنا ہے کہ اس کے منفی اثرات بھی مرتب ہوئے ہيں۔ انہوں نے کہا، ’’آپريشن سے طالبان کی قيادت افغانستان منتقل ہو گئی ہے، جہاں سے وہ پاکستانی سرزمین پر حملوں کی منصوبہ بندی جاری رکھے ہوئے ہے۔‘‘
دوسری جانب پاکستانی دفاعی تجزيہ کار ريٹائرڈ کرنل علی احسن کا کہنا ہے کہ باچا خان يونيورسٹی جيسے حملے آپريشن ضرب عضب کا رد عمل ہيں۔ ان کے بقول ايسے حملوں کو روکنا نا ممکن سی بات ہے کيونکہ جيسے جيسے فوج اپنی کارروائياں تيز تر کرے گی، دہشت گرد ايسے کم سکيورٹی والے اہداف کو نشانہ بناتے رہيں گے۔
مقامی اور بين الاقوامی ادارے اس حوالے سے بھی اعتراضات کا اظہار کر چکے ہيں کہ جنوبی پنجاب ميں متعدد شدت پسند گروہ سرگرم ہيں تاہم ان کے خلاف کارروائی نہيں کی جاتی۔ اس حوالے سے بات کرتے ہوئے ريٹائرڈ کرنل علی احسن نے کہا کہ اگرچہ يہ بات درست ہے ليکن فوج ہر مقام پر لڑائی نہيں لڑ سکتی۔ انہوں نے کہا، ’’فوجی قيادت کو يہ بھی ديکھنا ہوتا ہے کہ کسی مقام پر فوجی کارروائی کے کيا اثرات مرتب ہوں گے۔‘‘ علی احسن کا البتہ ماننا ہے کہ عين ممکن ہے کہ آپريشن ’ضرب عضب‘ کا اگلا مرحلہ جنوبی پنجاب ميں ہو۔
آپريشن ’ضرب عضب‘ کتنا شفاف؟
ملکی و بين الاقوامی ذرائع ابلاغ کے نمائندے ايک عرصے سے يہ شکايت بھی کرتے آئے ہيں کہ انہيں شمالی وزيرستان کے متاثرہ علاقوں تک رسائی نہيں ہے، جس سے آپريشن کی شفافيت پر سواليہ نشان لگ جاتا ہے۔ اس وقت عسکری آپريشن سے متعلق تفصيلات اور اعداد و شمار کا واحد ذريعہ آئی ايس پی آر کی ماہانہ پريس ريليزيں ہيں، جن کی ذريعے ميڈيا کو پيش رفت سے مطلع کيا جاتا ہے۔ بين الاقوامی ماہرين کے مطابق ذرائع ابلاغ کو متعلقہ مقامات تک رسائی نہ دينے کی ايک وجہ يہ بھی ہے کہ کاميابی سے متعلق اعداد و شمار بڑھا چڑھا کر پيش کرنے سے فوج کا مفاد جڑا ہوا ہے۔ يہ امر بھی اہم ہے کہ ’ضرب عضب‘ کے نتيجے ميں مقامی آباديوں کو وسيع پيمانے پر نقل مکانی کرنا پڑی ہے۔ تجزيہ نگار عقيل شاہ کا کہنا ہے کہ تاحال عسکری اور سويلين قيادت متاثرہ افراد کی مدد کرنے سے قاصر رہی ہے۔