آکسفورڈ یونیورسٹی سے کابل، افغان فرشتہ
23 مارچ 2018اس نوجوان طالبہ نے برطانیہ میں تعلیم انتہائی معتبر تصور کی جانے والی ’شیونگ اسکالرشپ ‘ کے ذریعے حاصل کی تھی۔ فرشتہ کا شمار ان چند پڑھے لکھے افغان شہریوں میں ہوتا ہے، جو اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود کئی دہائیوں سے جنگ سے نبرد آزما ملک افغانستان میں رہنا چاہتے ہیں۔ کابل سے فون پر گفتگو کرتے ہوئے فرشتہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،’’میری تعلیم سرکاری پالیسی سازی میں ہے اور یہی وجہ ہے کہ میں افغانستان میں رہ کر اس ملک کی خدمت کرنا چاہتی ہوں۔‘‘
گزشتہ برس اپنی تعلیم مکمل کر کے کابل پہنچنے والی فرشتہ نے ایک غیر سرکاری تنظیم کا آغاز کیا ہے۔ اس تنظیم کا مقصد نوجوان افغان شہریوں کی تخیلقی صلاحیتیں ابھارنا اور انہیں ناقدانہ سوچ کی طرف مائل کرنا ہے۔ اسی ادارے کا ایک مقصد افغان بچوں میں تعلیمی شعور بیدار کرنا بھی ہے۔ فرشتہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ ہر روز ایک موبائل لائبریری کو شہر کے مختلف حصوں میں لے جاتی ہے۔ جہاں مقامی بچے اس بس لائبریری میں بیٹھ کر کتابیں پڑھتے ہیں۔ فرشتہ انہیں کہانیاں بھی سناتی ہیں۔
فریشتے نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،’’ ابھی ہم نے کام کا آغاز کیا ہے۔ اس وقت مقصد زیادہ جگہ پہنچنے کے بجائے اپنے معیار کو برقرار رکھنا ہے۔ ہم ایک علاقے میں ہر دوسرے دن اپنی موبائل لائبریری کو لے کر جاتے ہیں۔‘‘
افغانستان پر طالبان کے قبضے کے وقت فرشتہ اور ان کا خاندان 1996 میں بطور پناہ گزین پاکستان چلا گیا تھا۔ کچھ سال پاکستان میں گزارنے کے بعد اس افغان لڑکی کا خاندان سن 2002 میں واپس کابل چلا گیا تھا۔
بطور مہاجر زندگی گزارنے کا تجربہ رکھنے والی فرشتہ کا کہنا ہے،’’ افغانستان میں حالات ساز گر نہیں ہیں۔ اس لیے میں ان لوگوں کو سمجھ سکتی ہوں جو ملک چھوڑ کر جا رہے ہیں لیکن میں کم از کم ابھی افغانستان کو چھوڑ کر نہیں جاؤں گی۔‘‘