’آگ کی نگری‘ اٹلی کے ايک خوب صورت خطے کی سياہ حقيقت
اٹلی کے جنوب ميں کمپانيا کا خطہ لاجواب پکوان اور اپنے شاندار ساحلوں کے ليے معروف ہے۔ تاہم اس علاقے کے لوگوں ميں سرطان اور بچوں کی اموات کی شرح بھی انتہائی اونچی ہے جو اس کے مثبت پہلوؤں پر پردہ ڈال ديتی ہے۔
کمپانيا پر سياہ بادل
املافی کا ساحلی علاقہ اور پومپے کے آثار قديمہ ان درجنوں مقامات ميں سے چند ايک ہی ہيں جو کمپانيا کو خاص بناتے ہيں۔ اسی علاقے سے ’پيزا‘ دنيا بھر ميں مقبول ہوا تاہم اسی علاقے کے ايک حصے کو ’موت کی تکون‘ بھی کہا جاتا ہے۔ نيپلز و کاسيرٹا نامی شہروں کے بيچ ايک علاقہ ہے جہاں لوگ کوڑے کے بيچ گزر بسر کر رہے ہيں۔ انہيں زہريلی گيسوں ميں سانس لينا پڑتا ہے اور وہاں دستياب پينے کے پانی کا معيار بھی ناقص ہے۔
ایک اَن دیکھا قاتل
فوٹو گرافر اسٹيفانو شيراٹو نے ان ماحولياتی مسائل کی فوٹو گرافی سن 2015 ميں شروع کی تھی۔ انہوں نے ڈی ڈبليو کو بتايا، ’’يہ سانحہ تيس برس سے وہيں کا وہيں ہے اور اس کی شروعات اس وقت ہوئی تھی جب کوڑے کرکٹ کو ماحول دوست طريقے سے ٹھکانے لگانے کے اخراجات سے بچنے کے ليے بين الاقوامی کمپنيوں نے مقامی سياستدانوں کے ساتھ معاہدے طے کيے تھے۔‘‘
غير فطری تبديلی
پچھلی چند دہائيوں کے دوران کئی ملين ٹن کچرا وہاں پھينکا گيا، جن پر سينکڑوں مکانات اور پورے پورے ديہات کھڑے ہو گئے۔ مقامی حکام نے ايک غير قانونی لينڈ فل پر ايک کيمپ کے قيام کی اجازت بھی دے دی۔ شيراٹو کا کہنا ہے، ’’جب ميں پہلی مرتبہ وہاں گيا، تو ميں يہ ديکھ کر حيران رہ گيا کہ کس طرح کوڑ کرکٹ کے ڈھير کے پہاڑ نمودار ہو گئے جو پہلے وہاں نہیں تھيں۔‘‘
’غير ضروری نسل‘
فوٹو گرافر اسٹيفانو شيراٹو نے ’آگ کی نگری‘ کے عنوان تلے اپنی تحقيق ميں کئی مقامی لوگوں سے اُن کی رائے لی۔ وہ بتاتے ہيں، ’’ميں ايسے بچوں سے مل چکا ہوں جو اپنے والدين کھو چکے ہيں اور ايسے والدين سے بھی مل چکا ہوں، جو اپنے بائیس ماہ تک کے بچے کھو چکے ہيں۔‘‘ شيراٹو، انا نامی ايک لڑکی کی کہانی بيان کرتے ہوئے بتاتے ہيں کہ اس کی بچی تندرست پيدا ہوئی پر دس ماہ کی عمر ميں وہ سرطان ميں مبتلا ہو گئی۔‘‘
معاملے کی تہہ تک پہنچنا
شيراٹو نے روزيٹہ نامی ايک ساٹھ سالہ عورت کے بارے ميں بتايا، جسے جب پتہ چلا کہ وہ سرطان ميں مبتلا ہے، تو اس نے تحقيق شروع کی۔ اس نے پتہ چلايا کہ اس کے کئی پڑوسی بھی اسی کيفيت کا شکار ہيں۔ اس نے ہر دروازہ کھٹکھٹايا اور معومات جمع کيں۔ روزيٹہ نے يہ تمام تر معلومات ايک کتاب ميں تحرير کيں، جو بعد ازاں اس مسئلے پر سے پردہ اٹھانے ميں کافی اہم ثابت ہوئی۔
بچنے کی صلاحيت
اس خطے کے ماحولياتی اور طبی مسائل پرشيدہ نہيں ہيں ليکن اٹلی کے نيشنل انسٹيٹيوٹ آف ہيلتھ نہ پہلی مرتبہ دو برس قبل ان مسائل کے متاثرہ علاقوں ميں موجود کچرے کے ڈھيروں سے تعلق کو تسليم کيا۔
مقامی لوگ علاقہ چھوڑنا بھی نہيں چاہتے
آلودگی اور کوڑے کرکٹ کے باوجود ’موت کی تکون‘ کے علاقے کے رہائشی اپنے مکانات نہيں چھوڑنا چاہتے۔ شيراٹو کے بقول مقامی لوگوں کو ملک کے ديگر حصوں ميں ملازمت ملنا مشکل ہے۔ اس کے علاوہ، جو لوگ وہاں پيدا ہوئے اور اپنی پوری پوری زندگياں وہيں گزار ديں، وہ اپنا علاقہ نہيں چھوڑنا چاہتے۔
کم علمی کوئی زبردست بات نہيں
دو سال قبل کيے گئے مطالعے کے بعد يہ معاملہ اب سياسی موضوع بن چکا ہے ليکن اس کے باوجود فی الحال کوئی حل سامنے نہيں آيا۔ شيراٹو کے بقول لوگ اب مسئلے سے واقف ہيں اور انصاف چاہتے ہيں۔ اسی ليے سياستدان اب اسے نظر انداز نہيں کر سکتے۔ فوٹو گرافر کا کہنا ہے کہ علاقے کو صاف کرنا بھی تاہم ايک بڑا مسئلہ ہے۔
بہتر مستقبل کی اميد
اسٹيفانو شيراٹو تين برس پر مبنی اپنی تحقيق کو تصاوير کی صورت ميں جاری کر رہے ہيں۔ اس کتاب کی اشاعت کے ليے درکار رقوم (https://crowdbooks.com/projects/terra-mala) پر جمع کی جاری ہيں۔