پانچ روز قبل لندن میٹروپولیٹن پولیس کے بارے میں ایک چشم کشا تحقیقاتی رپورٹ سامنے آئی تو دکھ سے زیادہ یہ اطمینان ہوا کہ
تم بالکل ہم جیسے نکلے۔
اب تک کہاں چھپے تھے بھائی
وہ مورکھتا وہ گھامڑ پن جس میں ہم نے صدی گنوائی
آخر پہنچی دوار توہارے ، ارے بدھائی بہت بدھائی
جب دو ہزار اکیس میں لندن میٹروپولیٹن پولیس کے ایک افسر وین کوزنز کو ایک جواں سال خاتون سارہ ایورارڈ کے ریپ اور قتل کے جرم میں عمر قید کی سزا ہوئی، پھر ایک اور افسر ڈیوڈ کیرک کو بھی بیس برس کے دوران درجنوں جنسی حملوں میں ملوث ہونے کے جرم میں تا حیات سلاخوں کے پیچھے بھیجا گیا تو محکمے کی شہرت بچانے کے لئے اس وقت کی لندن پولیس چیف کریسیڈا ڈک نے ایک آزادانہ انکوائری کروانے کا حکم دیا۔
یہ انکوائری رپورٹ گذشتہ ہفتے سامنے آ گئی اور خلاصہ یہ ہے کہ محکمے کا انتظامی ڈھانچہ جان بوجھ کے گلنے سڑنے دیا گیا۔چنانچہ نسلی و صنفی امتیاز بالخصوص خواتین ، ہم جنس اور مختلف جلدی رنگت والے اہلکاروں اور ساتھ کام کرنے والوں کو تضحیک و توہین و ازیت کا نشانہ بنانے کا رجحان اور شہریوں میں عدم تحفظ کا احساس بڑھتا چلا گیا۔
مدد کے متلاشی بچوں اور عورتوں کو پولیس سے وہ توجہ نہیں ملتی، جس کے وہ بطور شہری مستحق ہیں۔ زیادتیوں کے مرتکب اہلکاروں کے خلاف کی گئی شکایات کو نہ صرف نظرانداز کیا جاتا ہے بلکہ اکثر شکایت کنندہ مزید بدسلوکی اور ہراسگی کا سامنا کرتے ہیں۔سولہ سو مربع کلومیٹر رقبے میں پھیلے اسی لاکھ آبادی کے دارا لحکومت کے تحفظ و نگرانی کے زمہ دار محکمے میں یہ مسائیل ناقابل برداشت ہیں اور انہیں جڑ سے اکھاڑنے کے لئے اوپر سے نیچے تک دورس تبدیلیوں اور اکھاڑ پچھاڑ کی اشد ضرورت ہے ۔
یہ رپورٹ پڑھنے کے بعد لگا گویا ہماری پولیس اور تھانہ کلچر کی بات ہو رہی ہے جو آج تک انڈین پولیس ایکٹ اٹھارہ سو اکسٹھ کے تابع ہے اور ان تمام ہتھکنڈوں پر خلوص نیت و مہارت سے عمل پیرا ہے، جو کسی بھی نوآبادیاتی ڈھانچے کو برقرار رکھنے کے لئے ضروری ہے۔ مگر لندن میٹرو پولیٹن یا برطانوی پولیس کی وجہ شہرت تو کبھی بھی نوآبادیاتی سوچ رکھنے والے محکمے جیسی نہیں تھی ۔یہ کیا ہوا ؟
انیس سو پچاسی میں ایک سیاہ فام نوجوان جنوبی لندن میں کسی غلط فہمی میں مارا گیا ۔تب سے میٹروپولیٹن پولیس پر نسل پرستی کا الزام لگ رہا تھا۔ ہر سال دو سال میں کسی نہ کسی سیاہ فام کی پولیس حراست میں موت یا برسرِعام توہین و تشدد کا الزام سامنے آ جاتا ہے۔کچھ الزامات ثابت ہو جاتے ہیں کچھ جزوی طور پر سچ نکلتے ہیں ۔ مگر ہم نے انہیں یوں اہمیت نہ دی کہ ایسے الزامات تو امریکی پولیس پر بکثرت لگتے رہتے ہیں اور یہ کہ اکادکا کالی بھیڑیں تو ہر جگہ پائی جاتی ہیں۔
مگر تازہ ترین رپورٹ پڑھنے سے اندازہ ہوا کہ بقول جون ایلیا ”پولیس کہیں کی بھی ہو ، ہوتی پنجاب پلس ہی ہے۔‘‘
اگر آپ انٹرنیٹ پر دنیا کی دس سب سے بہتر اور پروفیشنل پولیس فورسز کی ترتیب اٹھا کے دیکھ لیں تو آپ کو ہر سروے میں برطانیہ ، جاپان ، چین ، جرمنی ، امریکہ اور کینیڈا کی پولیس فورسز کسی نہ کسی پائیدان پر نظر آئیں گی۔اور اگر آپ دنیا کی دس سب سے خراب پولیس فورسز کی فہرست پر نگاہ ڈالیں تو ہر فہرست میں کسی نہ کسی درجے پر آپ کو افغانستان ، نائجیریا ، کینیا ، پاکستان اور ہیٹی کے نام جگمگاتے دکھائی دیں گے۔
مگر لندن میٹروپولیٹن پولیس کے بارے میں خود سرکاری سطح پر آزادانہ انکوائری کی تفصیلات دیکھنے کے بعد پولیس کے برا اور اچھا ہونے کے بارے میں ہر نام نہاد بین الاقوامی سروے پر سے بھی اعتماد اٹھ گیا ہے ۔ میں چونکہ بارہ برس خود لندن میں گذار چکا ہوں ۔ لہذا پنجاب اور سندھ پولیس دیکھنے کے بعد مجھے لندن پولیس کا ہر گشت کرنے والا بوبی اپنا دوست نظر آتا تھا۔
خود ہم جب یہاں اپنے دیسی پولیس افسروں سے بات کرتے ہیں تو وہ جھٹ سے کہتے ہیں کہ پاکستانی پولیس کا لندن پولیس سے پیشہ وارانہ موازنہ زیادتی ہے ۔کیونکہ ان کی تربیت اور محکمہ جاتی سہولتوں کا معیار اور پاکستانی پولیس کو حاصل سہولتوں اور تربیت کے معیار میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔
ہمیں بھی اگر اتنا بجٹ اور وہی تربیتی و مراعاتی سہولتیں اور آلات و تحقیقی وسائل دے دیں تب ہم آپ کو دکھائیں کہ ہم گوروں سے کم باصلاحیت نہیں ۔ ہمارے تھانے میں تو اسٹیشنری اور پنسل خریدنے تک کا بجٹ نہیں ہوتا۔گشت کے لئے پٹرول بھی ہم سائل کی منت کر کے ڈلواتے ہیں اور ڈیوٹی پر آنے جانے کے لئے شہریوں سے لفٹ لینے پر مجبور ہوتے ہیں۔
ہمارے ہتھیاروں کے مقابلے میں مجرموں کے ہتھیار کئی گنا بہتر ہیں اور ہمیں سیاسی باسز اور ایجنسیاں اپنا زاتی ملازم سمجھتے ہیں۔یوں یہ محکمہ غریب کی جورو سب کی بھابی بن گیا ہے ۔ لہذا ہم اپنی فرسٹریشن اور محرومیاں کمزوروں پر نکالتے ہیں اور تنخواہ کے مقابلے مییں کئی گنا مہنگائی کا مقابلہ رشوت اور بھتے سے کرتے ہیں۔
مگر لندن پولیس کو تو ایسا کوئی مسئلہ درپیش نہیں ۔پھر بھی یہ رپورٹ کیا بتاتی ہے۔ یہی نا کہ اگر خود پولیس کی اپنی پولیسنگ بہتر انداز میں نہ ہو تو پھر بجٹ ، تربیت اور سہولتوں کے ہوتے بھی ٹھہرا ہوا پانی سڑنے لگتا ہے۔
باز پرس اور جزا وسزا کا غیر جانبدارانہ نظام ہی طاقت کے ناجائز استعمال کو لگام دے سکتا ہے۔ ورنہ تو کیا پنجاب پولیس ، کیا اترپردیش کی پولیس اور کیا لندن میٹروپولیٹن پولیس، سب کا حساب کتاب برابر ہی ہے اگر لگام کس کے نہ رکھی جائے۔
مصحفی ہم تو یہ سمجھے تھے کہ ہوگا کوئی زخم
تیرے دل میں تو بہت کام رفو کا نکلا
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔