1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اب تھری ڈی پرنٹر سے ہڈیاں بنیں گی

6 اپریل 2015

جرمن محققین ایک ایسا تھری ڈی پرنٹرز تیار کر رہے ہیں جو ممکنہ طور پر ایسی ہڈیاں تیار کر سکے گا جن میں خون کی نالیاں بھی موجود ہوں گی۔ قبل ازیں ماہرین ٹشوز تیار کرنے کے لیے بھی یہ ٹیکنیک استعمال کر رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1F3HW
تصویر: Fotolia/ebastian Kaulitzki

آج کل تھری ڈی پرنٹرز قریب ہر چیز ہی تیار کرنے کے لیے استعمال کیے جا رہے ہیں۔ یہاں تک کہ طبی ماہرین اس کی مدد سے جسم کے ٹشوز وغیرہ بھی تیار کرنے کی کوشش میں ہیں۔ جرمنی کی فرائی برگ یونیورسٹی کے ماہرین نے تاہم ایک قدم اور اس سمت میں آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے اور وہ ہے تھری ڈی پرنٹر کی مدد سے ایسی ہڈیاں تیار کرنا جس کے اندر خون کی نالیوں کا اپنا نظام بھی موجود ہو۔ اس طرح اس بات کے امکانات بڑھ جائیں گے کہ جسم میں ایسی کوئی ہڈی لگانے کے بعد وہ اپنے ارد گرد کے ٹشوز کے ساتھ جلد جُڑ جائے گی۔

فرائی برگ یونیورسٹی کے پلاسٹک اینڈ ہینڈ سرجری سنٹر کے ٹشو انجینیئرنگ ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ گُنٹر فِنکینزلر کے مطابق، ’’اس نئی ٹیکنیک کی بدولت وقت کے حوالے سے بہت اہم فرق پڑے گا۔‘‘ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ’’پرنٹ شدہ خون کی نالیوں کو صرف اس چیز کی ضرورت ہو گی کہ وہ نصب شدہ ہڈی کے ارد گرد موجود قدرتی ٹشوز اور جسم کی دیگر نالیوں کے ساتھ براہ راست جُڑ جائیں۔‘‘ طبی میدان میں موجود دیگر طریقوں میں ضرورت اس بات کی ہوتی ہے کہ امپلانٹ شدہ ہڈی کے ارد گرد موجود ٹشوز کی خون کی نالیاں اس ہڈی میں بھی بڑھیں جس کے لیے دو ہفتوں تک کا وقت درکار ہوتا ہے تاہم اس دوران مصنوعی ہڈی کام کرنے کے قابل نہیں رہتی۔

محققین اس مقصد کے لیے ہائیڈرو جیلز اور ہمارے جسم کے مناسب خلیوں کو استعمال کریں گے
محققین اس مقصد کے لیے ہائیڈرو جیلز اور ہمارے جسم کے مناسب خلیوں کو استعمال کریں گےتصویر: picture-alliance/dpa

اس بات میں ابھی کچھ وقت لگے کہ فِنکینزلر، پراجیکٹ کے شریک سربراہ پیٹر کولٹے اور ان کے ساتھیوں کو اس طرح کی ہڈیاں اور خون کی نالیاں تیار کرنے میں کامیاب ہوں۔ اس پراجیکٹ پر تحقیق کے لیے فنڈز جرمن ریسرچ فاؤنڈیشن DFG نے فراہم کیے ہیں۔ یہ فاؤنڈیشن تین برس کے دوران ریسرچ کے لیے چار لاکھ 60 ہزار یورو کے فنڈز دے گی۔ اس حوالے سے سب سے پہلے اس مقصد کے لیے درکار ایک پرنٹر تیار کیا جائے گا۔

تاہم اب تک اس حوالے سے درپیش سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ اس طرح کے پرنٹرز مصنوعی میٹریل استعمال کرتے ہیں جنہیں ہمارا جسم قبول نہیں کرتا۔ تاہم جرمن محققین اس مقصد کے لیے ہائیڈرو جیلز اور ہمارے جسم کے مناسب خلیوں کو استعمال کریں گے۔ اس طرح سے جو ہڈیاں اور ان میں موجود خون کی نالیاں ہوں گی وہ ممکنہ طور پر جسم مسترد نہیں کرے گا اور وہ جسم کا حصہ ہی بن جائیں گی۔