ابدی امن کے چوک میں خونریزی کے 22 سال
3 جون 2011انسانی حقوق کے گروپوں نے اس واقعے کے 22 سال پورے ہونے کے موقع پر چینی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ ابدی امن کے اس خونریز واقعے کی وضاحت کرے اور منحرفین کے خلاف بدستور جاری کارروائیوں کا سلسلہ بند کرے۔
چینی حکومت نے سرکاری طور پر 1989ء کے مظاہروں کو ’انقلاب دشمن بغاوت‘ قرار دیا تھا تاہم اب وقت کے ساتھ ساتھ اِس اصطلاح میں کافی نرمی کی جا چکی ہے۔ چینی حکومت کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ اس موضوع پر مزید کچھ کہنے کی ضرورت نہیں اور یہ کہ بیجنگ حکومت کے نزدیک یہ باب بند ہو چکا ہے۔
اس سال وسط فروری سے پوری عرب دُنیا میں انقلابی عوامی تحریکیں اُبھری ہیں، جن کے نتیجے میں تیونس اور مصر جیسے ممالک میں عشروں سے برسرِ اقتدار چلے آ رہے حکمرانوں کو رخصت ہونے پر مجبور کر دیا گیا ہے۔ چین میں اِن عرب انقلابی تحریکوں کے اثرات کو روکنے کے لیے گزشتہ چند ماہ کے دوران درجنوں وکلاء، سیاسی کارکنوں اور منحرفین کو حراست میں لیا جا چکا ہے اور یہ سلسلہ ابھی بھی جاری ہے۔
انسانی حقوق کے لیے سرگرم چینی تنظیم CHRD نے ایک بیان میں کہا ہے کہ چینی حکومت ابھی بھی شہریوں کو اُن کے بنیادی حقوق اور آزادیاں دینے کے مرحلے سے بہت دور ہے جبکہ یہی وہ مطالبات تھے، جنہیں منوانے کے لیے مظاہرین 1989ء میں چھ ہفتوں تک ابدی امن کے چوک میں پڑاؤ ڈالے بیٹھے رہے تھے۔ ہانگ کانگ میں قائم CHRD نے، اقوام متحدہ کی حقوق انسانی کونسل پر، جس کا کہ چین رکن بھی ہے، زور دیا ہے کہ 22 سال پہلے کے اس واقعے کی مکمل تحقیقات کروائی جائیں۔
امریکہ میں قائم تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے بھی ابدی امن کے چوک کے خونریز واقعے کی 22 ویں برسی پر ایک بیان میں کہا ہے کہ چین میں 1989ء کے بعد سے منحرفین کے ساتھ حکومت کے سلوک میں کوئی بہتری دیکھنے میں نہیں آئی ہے۔
اگرچہ چینی حکومت کی تمام تر کوشش یہ ہے کہ چین میں لوگ 22 برس پہلے کے اس واقعے کو فراموش کر دیں تاہم بہت سے سرگرم کارکنوں نے انٹرنیٹ کی وساطت سے اس دن کی یادوں کو زندہ رکھا ہوا ہے۔
رپورٹ: امجد علی
ادارت: امتیاز احمد