احمدی نژاد کا لبنانی،اسرائیلی سرحدی علاقےکا دورہ
14 اکتوبر 2010ایرانی صدر احمدی نژاد نے بنت نامی قصبے میں حزب اللہ کے ہزاروں حامیوں سے اپنے خطاب میں انہیں اپنی بھرپور حمایت کا یقین دلاتے ہوئے کہا،’صیہونی فانی ہیں‘۔ انہوں نے لبنانی قوم کو دیگر علاقائی اقوام کے لئے ایک عمدہ مثال قرار دیا۔
اسرائیل اور لبنان کے مابین جنوبی سرحدی علاقہ بااثر شیعہ تنظیم حزب اللہ کا اہم علاقہ تصور کیا جاتا ہے۔ ایرانی صدر کی طرف سے اس مخصوص علاقے کے دورے کو اسرائیلی حکام بہت مشکوک اور تنقیدی نظروں سے دیکھ رہے ہیں جبکہ امریکہ نے بھی ایرانی صدر کے اس سرحدی علاقے میں جانے کے فیصلے کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
اسرائیلی وزارت خارجہ کی طرف سے جمعرات کو جاری کئے گئے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ دورہ ’’اشتعال انگیز ہے اور اس سے سیاسی غیر یقینی کی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے۔‘‘ وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا: ’’یوں معلوم ہوتا ہے کہ احمدی نژاد کے ارادے صحیح نہیں ہیں اور وہ آگ سے کھیلنے کے لئے وہاں کا دورہ کر رہے ہیں۔‘‘
اطلاعات کے مطابق صدر محمود احمدی نژاد اسرائیل اور لبنان کے درمیان سرحدی علاقے کے دورے کے دوران ان دیہات میں بھی جائیں گے، جو سن 2006ء کی جنگ کے دوران تباہ ہو گئے تھے۔ یہ 34 روزہ جنگ اسرائیل اور حزب اللہ کے عسکریت پسندوں کے درمیان لڑی گئی تھی۔
دوسری طرف اسرائیلی ذرائع ابلاغ کے مطابق اگرچہ احمدی نژاد کا یہ دورہ اسرائیلی حکام کے لئے خوشگوار نہیں بلکہ اشتعال انگیز ہے تاہم تل ابیب میں حکام اس پر کوئی باقاعدہ ردعمل ظاہر نہیں کریں گے۔
صدر احمدی نژاد کا یہ اولین دورہء لبنان تہران اور حزب اللہ کے مابین دوستی کے نئے باب سے منسوب کیا جا رہا ہے۔ اس صورتحال میں لبنان میں برسر اقتدار مغرب نواز حکومت بھی مبینہ طور پر ایرانی رہنما کے اس دورے پر زیادہ خوش نہیں ہے۔ وزیر اعظم سعد حریری اور ان کی کابینہ کے کئی اہم وزراء اس بارے میں اپنی تشویش ظاہر کر چکے ہیں۔ کئی رپورٹوں میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ایرانی صدر اپنے لبنانی ہم منصب میشل سلیمان کی دعوت پر لبنان گئے ہیں۔
بدھ کو جب محمود احمدی نژاد بیروت کے ہوائی اڈے پر پہنچے تھے تو حزب اللہ کے کارکنان نے ان کا پرتپاک استقبال کیا تھا۔ اس موقع پر ایرانی صدر نے حزب اللہ کو اپنی بھرپور حمایت کا یقین بھی دلایا تھا۔
رپورٹ: عاطف بلوچ
ادارت: مقبول ملک