اختتام کائنات کا امکان، بحث پھر شروع
18 اکتوبر 2010فزکس یا طبیعات کی ایک خصوصی برانچ کو ایسٹرو فزکس یا فلکی طبیعات کہا جاتا ہے۔ اس طبیعاتی مضمون میں سائنسدان سماوی اجرام کا خصوصی مطالعہ کرتے ہیں وہ کائناتی اشیا کی کیمیائی ترکیب اور طبیعی خواص کو ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں اس مضمون کے ماہرین کو ’’ایسٹروفزیسٹ‘‘ کہا جاتا ہے۔
انہی ماہرین کے ایک گروپ کا خیال ہے کے اگلے 37 ارب سالوں کے بعد وقت تھم جائے گا اور کائنات کا مکمل انہدام ممکن ہے۔ ان کا خیال ہے کہ پچاس فیصد اس کا امکان ہے کہ زمان و مکان کا مکمل خاتمہ نہ ہو اور یہ کسی اور صورت میں افزائش پا جائے۔ امریکی اور جاپانی ماہرین فلکیاتی و طبعیات نے تازہ ریسرچ کے بعد اپنی رپورٹ میں اس جانب اشارہ کیا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ سائنسدان اس بات پر بھی متفق ہیں کہ کائنات بدستور وسعت پا رہی ہے اور سائنسدانوں کے ایک بڑے حلقے کا خیال ہے کہ کائنات کے انہدام کا کوئی امکان موجود نہیں کیونکہ یہ مسلسل تشکیل و تکمیل کے عمل سے گزر رہی ہے۔ اس سوچ کے مقابلے میں کیلیفورنیا یونیورسٹی کے ایسٹرو فزکس کے ماہر رالف باؤسو کا کہنا کہ تازہ تحقیق سے ایسا اشارہ ملا ہے کہ یہ کائنات لافانی نہیں بلکہ فانی ہے۔
اساس کائنات کے بارے میں مختلف نظریات کی شروعات عظیم گونج یا بگ بینگ سے ہوتی ہے۔ جس کے مطابق کائنات کی موجودہ شکل اندازاً 137 ارب سال پہلے وجود میں آئی تھی۔ اس وقت ایک عظیم دھماکہ ہوا تھا۔ اسی کو بگ بینگ کا نام دیا گیا ہے۔ رالف باؤسو کا یہ ضرور اعتراف ہے کہ کائنات کے انجام کا معاملہ انتہائی پیچیدہ ہے اور مختلف ریاضی گتھیوں کو حل کرنے کے باوجود اختتام زمانہ کی کوئی حتمی تاریخ تعین کرنا انتہائی مشکل ہے۔
رالف باؤسو کی ٹیم کی رپورٹ پر تنقیدی عمل شروع ہو گیا ہے۔ اس مناسبت سے آسٹریلیا کے ایسٹرو فزیسٹ چارلس لائن ویور نے رپورٹ کو مسترد کردیا ہے۔ ان کے خیال میں باؤسو کی رپورٹ کلی طور پر ایسے مفروضوں سے عبارت ہے جو کسی حل کی جانب لے کر جانے کے بجائے پیچیدگیوں سے عبارت ہے۔ آسٹریلوی سائنسدان کا مزید کہنا ہے کہ اس مسئلے کے کسی بہتر حل کے لئے ابھی کئی سال درکار ہیں کیونکہ کئی ریاضی کے حل طلب سوال راہ کی بڑی رکاوٹوں میں سے ہیں۔ لائن ویور کے مطابق کائنات کے اختتام کی ممکنہ حد مقرر کرنے کے لئے رالف باؤسو کی ٹیم نے طبعی دلائل فراہم نہیں کئے ہیں۔ آسٹریلیئن نیشنل یونیورسٹی سے منسلک سائنسدان کا خیال ہے کہ کائنات کے اختتام کی بات ایک انتہائی سنجیدہ سوال ہے اور یہ کوئی ریاضی لطیفہ نہیں ہے۔
رپورٹ: عابد حسین
ادارت: کشور مصطفیٰ