ادلب میں جنگ بندی، روس سلامتی کونسل کی حمایت حاصل نہ کر سکا
7 مارچ 2020سفارتی ذرائع کے مطابق امریکا نے سلامتی کونسل میں شام میں جنگ بندی کی حمایت میں مشترکہ بیان جاری کرنے کے عمل کو ویٹو کر دیا ہے۔ شام میں جنگ بندی کی یہ نئی کوشش روس اور ترکی نے مشترکہ طور پر کی ہے۔ جنگ بندی کی اس ڈیل کو ماسکو میں ترک صدر رجب طیب ایردوآن کی اپنے روسی ہم منصب ولادیمیر پوٹن کے ساتھ ہونے والی ملاقات میں طے کیا گیا تھا۔
امریکا نے اس قرارداد کو یہ کہہ کر ویٹو کیا کہ یہ ابھی بہت ہی ابتدائی ہے اور بظاہر کئی سولات کے جواب واضح نہیں ہیں۔ ایسے ہی تاثرات برطانیہ اور جرمنی کی جانب سے بھی سامنے آئے ہیں۔ جرمن سفیر کرسٹوف ہوئسگن کا بھی یہ کہنا تھا کہ یہ دیکھنا اہم ہے کہ اگلے دنوں میں جنگ بندی پر مناسب انداز میں عمل بھی کیا جائے گا۔
اقوام متحدہ میں روسی سفیر واسلی نیبن زیا نے سلامتی کونسل کے اجلاس میں دیگر چودہ اراکین سے درخواست کی کہ وہ اس فائربندی معاہدے کی توثیق کریں۔ انہوں نے واضح کیا کہ اس جنگ بندی کو کئی ممالک نے امن و مصالحت کی جانب ایک بہتر قدم قرار دیا ہے۔ جنگ زدہ ملک شام کے صدر بشار الاسد نے بھی جنگ بندی کا خیرمقدم کیا تھا۔
سلامتی کونسل کا یہ اجلاس بند کمرے میں ہوا تھا۔ اس تناظر میں بعض سفیروں نے نام اور شناخت مخفی رکھتے ہوئے بتایا کہ روس نے جنگ بندی ڈیل کے حوالے سے فرانس اور برطانیہ کی پیش کردہ بعض تجاویز کو زیر بحث لانے سے انکار کر دیا۔ اس مناسبت سے سفارتی حلقوں نے خیال کیا ہے کہ امریکا کی جانب سے ویٹو کیے جانے میں اس امر کا بھی ہاتھ ہو سکتا ہے۔
اقوام متحدہ میں جرمنی کے مستقل مندوب کرسٹوف ہوئسگن کا یہ بھی کہنا ہے کہ انہیں ادلب میں لاکھوں افراد کی پریشانیوں اور جنگی حالات سے پیدا صورت حال پر تشویش ہے۔ ہوئسگن کے مطابق جنگ بندی کے بعد وہ کن حالات سے دوچار ہیں اور ایک محفوظ علاقے قائم ہونے کے بعد آیا وہ واپس جا کر زندہ و سلامت بچ سکیں گے۔ انہوں نے واضح کیا کہ ادلب کے متاثرین کے لیے جرمنی اور برطانیہ اضافی امداد دینے پر تیار ہیں لیکن جنگ بندی کا ایک مضبوط معاہدہ ضروری ہے۔
ع ح ⁄ ش ح ( اے پی، اے ایف پی)