ادویات بناتے ہوئے ارتقاء بھی تو نظر میں رکھا جائے
2 نومبر 2009محقیقین کا خیال ہے کہ نئی بیماریوں کا تعلق انسانی جسم میں جاری ارتقاء کے ایک مسلسل عمل سے ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں سے انسانی جسمانی ارتقاء کا ہم آہنگ نہ ہونا ہے۔ اسی خیال اور نظریئے کو پیش نظر رکھتے ہوئے سائنسدانوں نے ارتقائی یا ڈاروینین ادویات کے طبی شعبے کی بنیاد رکھی ہے۔ چند روز قبل برلن میں اسی حوالے سے ایک عالمی کانفرنس منعقد کی گئی، جس میں دنیا بھر سے اس شعبے میں تحقیق کرنے والے سائنسدانوں کو مدعو کیا گیا تھا۔ کانفرنس میں تمام حیاتیات دانوں نے اس بات پر اتفاق ظاہر کیا کہ ادویات کی تیاری میں انسانی جسم میں صدیوں سے جاری ارتقاء کو بھی ملحوض خاطر رکھا جانا چاہئے۔
مشی گن یونیورسٹی کے پروفیسر رینڈولف نیسے اس شعبے کے بانیوں میں سے ایک خیال کئے جاتے ہیں۔ کانفرنس میں محقیق سے اپنے خطاب میں انہوں نے کہا کہ انسانی جسم کوئی مشین ہر گز نہیں ہے جسے کسی اینجینیئر نے بنایا ہو بلکہ یہ فطرت کی ڈیزائن کردہ تخلیق ہے اور اسی لئے انسانی جسم کے کئی حصوں میں کئی سقم بھی موجود ہیں۔ پروفیسر نیسے کے مطابق انسانی اعضاء میں پائی جانے والی یہی تفاوتیں ایک انسان کو دوسرے سے مختلف بناتی ہیں۔
پروفیسر نیسے نے اپنے خطاب میں کہا کہ طب کے شعبے میں تیز رفتار ترقی کے ساتھ ساتھ انسانی صحت میں ہیلتھ کیئر پالیسیاں اور بیماریوں سے تحفظ کے پیشگی اقدامات انتہائی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔
برلن میں منعقد ہونے والی اس عالمی کانفرنس میں دنیا کے ساٹھ سے زائد ممالک سے 700 محقیقین نے شرکت کی۔ اس کانفرنس میں صنعتی انقلاب اور سائنسی ترقی کے بعد بڑے پیمانے پر سامنے آنے والی بیماریوں خصوصا موٹاپے اور دمے جیسے امراض کا بغور جائزہ لیا گیا۔ محقیقین نے اتفاق ظاہر کیا کہ ماحول میں تیزی سے پیدا ہونے والی تبدیلیاں انسانی جسم میں جاری ارتقاء کی رفتار سے زیادہ تیز ہیں جس کی وجہ سے انسانی جسم انہیں قبول نہیں کر پا رہا۔ محقیق کے مطابق ماحولیاتی تبدیلیاں انسانی جسم میں بیماریوں کے خلاف مذاحمت کو بھی متاثر کر رہی ہیں۔ محقیقین کا کہنا ہے کہ ایسا بھی ممکن ہے کہ کسی ایک بیماری کے خلاف دی جانے والی دوا کسی دوسری بیماری کی تخلیق کا باعث بن رہی ہو۔ اجلاس میں بتایا گیا کہ ترقی یافتہ ممالک میں دمے، الرجی اور جسمانی اعضاء کے فیل ہوجانے کی بیماریوں کے زیادہ کیسز دیکھے گئے ہیں۔
اجلاس میں دنیا بھر سے محقیق کی جانب سے پیش کی گئی تحقیق کی بنیاد پر کہا گیا کہ ترقی پزیر ممالک میں دوسری بیماریاں اگرچہ زیادہ ہیں تاہم الرجی اور جسمانی اعضاء کے فیل ہوجانے جیسی بیماریاں بہرحال ترقی یافتہ ممالک کی نسبت کم ہیں۔
نارتھ ویسٹ یونیورسٹی آف یونائیٹد اسٹیٹس کے پروفیسر ویلیم لیونارڈ نے برلن میں اسی موضوع پر منعقد ہونے والی ایک دوسری کانفرنس سے اپنے خطاب میں کہا کہ مغربی ممالک کے لوگوں میں موٹاپے کی ایک وجہ زیادہ چکنائی اور کیلوریز کے حامل فاسٹ فوڈ کا زیادہ استعمال ہے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ طویل عرصے تک فاسٹ فوڈ کے استعمال سے جسمانی اعضاء کے ناکارہ ہونے کے امکانات زیادہ دیکھے گئے ہیں۔ پروفیسر لیونارڈ کے مطابق جسمانی ضرورت سے زائد یا روزہ مرہ خرچ کی جانے والی توانائی سے زیادہ حراروں کی حامل خوراک کا استعمال بھی انسانی اعضاء کے ناکارہ ہونے کا ایک بڑا سبب ہے۔
جنوبی افریقہ کی یونیورسٹی کیپ ٹاؤن سے وابستہ پروفیسر ڈان سٹائن نے اجلاس میں کہا کہ یہ فرق کرنا انتہائی ضروری ہے کہ آیا ہم جسے بیماری سمجھتے ہیں وہ واقعی بیماری بھی ہے یا جسم کے خودکار نظام کی تحریک۔
برلن میں منعقد ہون والی صحت کی اس عالمی کانفرنس میں طب اور کیمیاء کے علاوہ سیاست اور سوشل سیکٹر سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ دنیا بھر میں انسانی صحت کے معیار کی بلندی کے لئے اپنا کام جاری رکھیں گے۔
رپورٹ عاطف توقیر
ادارت : گوہرنذیر