’ارتھ آور‘ تحفظ ماحول کے لیے بتیاں بجھائی جائیں گی
آج دنیا بھر میں لاکھوں افراد ’ارتھ آور ‘ منا رہے ہیں۔ ’ارتھ آور‘ منانے کا مقصد عالمی درجہ حرارت میں اضافے اور اس کے ماحول پر پڑنے والے اثرات کے بارے میں شعور اجاگر کرنا ہے
سڈنی سب سے پہلے
آسٹریلیا میں سڈنی اوپیرا ہاؤس اور ہاربر برج وہ پہلے مشہور مقامات ہیں، جو ایک گھنٹے کے لیے تاریکی میں ڈوبے رہے۔
آغاز
ارتھ آور منانے کا آغاز سب سے پہلے 2007ء میں آسٹریلیا کے شہر سڈنی سے ہی ہوا تھا جب شہر کے بائیس لاکھ افراد نے تمام غیر ضروری روشنیاں بند کر دی تھیں۔ اس کے بعد سے اسے عالمی دن کا درجہ دے دیا گیا۔
ہیرو شپیسیز
ماہرین کے مطابق ’ہیرو شپیسیز‘ کی اصطلاح سبز کچھوؤں، کوآلہ (خرسک)، چٹانوں پر رہنے والے کینگروز کی چھوٹی قسم یعنی روک والابیز اور پنگوئنز کے لیے استعمال کی گئی ہے۔ آسٹریلیا میں یہ دن خاص طور پر ان جانوروں کے لیے مخصوص کیا گیا ہے۔
برلن
جرمن دارالحکومت برلن کے معروف برانڈن برگ گیٹ کی بتیاں بھی بجھائی جائیں گی۔ گزشتہ برس کولون کا مشہور زمانہ کلیسا ’کولنر ڈوم‘ بھی ایک گھنٹے کے لیے اندھیرے میں ڈوبا رہا تھا۔
سات ہزار سے زائد شہر
ذرائع کے مطابق ارتھ ڈے کے موقع پر دنیا کے 187 ممالک کے سات ہزار سے زائد شہر اس مہم میں حصہ لیں گے۔ اس دوران مقامی وقت کے مطابق رات ساڑھے آٹھ سے ساڑھے نو بجے تک نمایاں مقامات تاریکی میں ڈوب جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ شہری بھی اپنے گھروں کی اضافی بتیاں بند کر دیتے ہیں۔
علامتی اقدام
روشنیاں بجھانا بظاہر ایک علامتی اقدام ہے تاہم اس دوران یہ مہم انتہائی کامیاب ہو چکی ہے۔ اسی کی وجہ سے گالاپگوس جزائر پر پلاسٹک کی تھیلیوں پر پابندی عائد کی گئی اور قزاقستان میں سترہ ملین درخت لگائے گئے۔
دنیا ایک ساتھ
بیجنگ کا گھونسلہ نما اولمپک اسٹیڈیم، پیرس کے آئفل ٹاور، اہرام مصر اور نیو یارک کی ایمپائر اسٹیٹ بلڈنگ ارتھ آور میں حصہ لیتے ہیں۔ اس کے علاوہ ایسے بہت سے نمایاں مقامات ہیں، جن کی لائٹیں بند کی جاتی ہیں۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف
’ارتھ آور‘ کا اہتمام عالمی تنظیم ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ کی جانب سے کیا جاتا ہے۔ اس تنظیم کے ڈائریکٹر جنرل مارکو لیمبرٹینی کہتے ہیں، ’’ماحولیاتی تبدیلیاں ہمارے سیارے اور معاشرے کے استحکام کے لیے ایک بڑا خطرہ ہیں ۔‘‘