ارشد ندیم کے گاؤں میں خوشیاں، بھنگڑے اور مٹھائیاں
9 اگست 2024گزشتہ شب دیر گئے اولمپک گیمز میں جیولن پھینکنے کا فائنل مقابلہ دیکھنے کے لیے درجنوں لوگ ارشد ندیم کے گھر کے باہر موجود تھے۔ گاؤں والوں نے کھیتوں کے قریب ایک ٹرک پر اسکرین لگا کر یہ فائنل مقابلہ براہ راست دیکھا۔ جسے ہی ارشد ندیم کی برچھی پیرس میں اولمپکس کا ایک نیا ریکارڈ بنانے اور سونے کے تمغے کے لیے بلند ہوئی تو ہزاروں کلومیٹر دور واقع یہ دیہات خوشی کے نعروں سے گونج رہا تھا۔
ارشد ندیم کے 35 سالہ بھائی محمد عظیم کا کہنا تھا، ''اس نے شاندار تھرو کی اور ایک نئی تاریخ رقم کی۔ ہمیں اس پر فخر ہے۔‘‘
ارشد ندیم کی جیت کے بعد مردوں نے ڈھول کی تھاپ پر رقص کیا اور کئی دوسروں نے نے تالیاں بجائیں۔ رات دیر گئے نعروں کی گونج سے گاؤں میں سوئے ہوئے لوگوں کو بھی معلوم ہو گیا کہ ارشد جیت گیا ہے۔
مرد ارشد کے گھر کے باہر اسکرین پر یہ فائنل دیکھ رہے تو خواتین اس کے چھوٹے سے گھر میں ایک ٹیلی وژن کے اردگرد جمع تھیں۔ ارشد کی والدہ رضیہ پروین نے اپنے دیہاتی اور پنجابی لہجے میں بتایا، ''اس نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اچھا کھیلے گا، بیرون ملک جائے گا، تمغہ جیتے گا اور پاکستان کا سر فخر سے بلند کرے گا۔‘‘
اپنے حریفوں کی طرح ارشد ندیم کو جدید سہولیات میسر نہیں تھیں اور وہ عام سے آلات سے ہی پریکٹس کرتے رہے لیکن اس کے باوجود ندیم نے گزشتہ 32 برسوں میں پاکستان کو پہلا اولمپک گولڈ میڈل دلایا ہے۔
ندیم کے سابق کوچ رشید احمد، جنہوں نے پہلی بار ان کی صلاحیتوں کو دیکھا تھا، کا کہنا ہے، ''ان کا تعلق میاں چنوں سے ہے۔ ان کا تعلق ایک چھوٹے سے گاؤں سے ہے اور اس نے بین الاقوامی سطح پر پاکستانی قومی پرچم کو بلند کیا ہے۔‘‘
27 سالہ ندیم ایک مستری کے بیٹے ہیں اور آٹھ بہن بھائیوں میں تیسرے نمبر پر ہیں۔ زیادہ تر پاکستانیوں کی طرح وہ بھی پہلے کرکٹ کی طرف ہی راغب ہوئے تھے۔
ارشد کے بڑے بھائی شاہد ندیم نے کہا، ''میں نے ارشد کو کرکٹ کھیلنے سے ایک ایسے وقت میں جیولین کی طرف مائل کیا، جب کوئی نہیں جانتا تھا کہ جیولن کیا ہوتا ہے۔‘‘
ریٹائرڈ مقامی اسپورٹس اہلکار پرویز احمد ڈوگر نے پیشہ ورانہ تربیت حاصل کرنے کے لیے ندیم کو درپیش مشکلات کے بارے میں بتایا، '' وہ لکڑی کی چھڑی کو جیولن کے طور پر اس کے گرد رسی باندھ کر استعمال کرتے تھے اور ان کی نوک بھی زمین میں نہیں گھستی تھی۔‘‘
پاکستان کے پاس ''ٹریک اینڈ فیلڈ‘‘ کے لیے وقف مناسب گراؤنڈ نہیں ہے، اس لیے کھلاڑیوں کو کرکٹ کے میدان پر ہی اپنی یہ ٹریننگ کرنا پڑتی ہے۔‘‘
مارچ میں ندیم نے انکشاف کیا تھا کہ ان کے پاس صرف ایک برچھی (جیولن) ہے، جسے وہ گزشتہ سات برسوں سے استعمال کر رہے تھے اور وہ خراب ہو گیا تھا۔
گزشتہ شب جیت کے بعد ارشد ندیم کا کہنا تھا، ''میں نے جیولین پھینکا تو مجھے اس کو ہاتھ سے چھوڑنے کے ساتھ ہی احساس ہوا کہ یہ اولمپک ریکارڈ ہو سکتا ہے۔‘‘
ارشد ندیم ابھی فرانس میں ہیں لیکن ان کے گاؤں میں ابھی سے ان کے شاندار استقبال کے لیے تیاریاں شروع ہو چکی ہیں۔
ا ا / ش ر (اے ایف پی)