اس بار ترکی میں فوجی بغاوت مختلف تھی، ڈی ڈبلیو کا تبصرہ
16 جولائی 2016پورا ترکی رات بھر جاگتا رہا، یہ جاننے کے لیے اب کیا ہونے والا ہے۔ صبح کے وقت حکومت نے اعلان کیا کہ اقتدار پر فوجی قبضے کی کوشش ناکام ہو گئی ہے۔ تاہم ترکی کا مستقبل اب بھی غیر یقینی ہے۔
جمعے کی شب جس طرح کی فوجی بغاوت کی کوشش کی گئی، وہ اس سے مختلف تھی جس کا تجربہ ترک عوام نے اس سے پہلے کیا ہے۔ اس بار فوج کے صرف ایک دھڑے نے صدر رجب طیب ایردوآن کی حکومت گرانے کی کوشش کی۔ گو کہ حکومت واضح طور پر گولن تحریک، جسے ایردوآن ایک دہشت گرد تنظیم قرار دے چکے ہیں، پر انگلی اٹھا رہی ہے، یہ طے نہیں ہو سکا کہ بغاوت کے پیچھے کون تھا۔
ترکی نے پچھلی دہائیوں میں کئی فوجی بغاوتوں کا سامنا کیا ہے۔ انیس سو اسی میں دائیں اور بائیں بازو کے سیاسی کارکنوں کے درمیان شروع ہونے والی جھڑپوں کے بعد فوج نے اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا۔ اس سے پہلے کی فوجی بغاوتوں کے پیچھے تمام فوج تھی، لیکن اس بار فوج کا صرف ایک چھوٹا سا دھڑا۔
بغاوت کے بعد حکومتی فورسز نے قریب تین ہزار فوجیوں کو گرفتار کر لیا ہے۔ رات بھر باغی فوجیوں اور ترک پولیس کے درمیان گولیوں کا تبادلہ ہوتا رہا۔ مگر یہ سب کس کے ایما پر ہو رہا تھا؟ ہمیں کئی سوالات کے جواب کھوجنا ہیں۔ ہم ایک بار پھر دیکھ رہے ہیں کہ بعض حلقے ترکی میں جمہوریت اور استحکام کے درپے ہیں۔ یہ ایک خطرناک بات ہے کہ ایک ہی رات میں پورا ملک ایک جنگی میدان میں تبدیل ہو گیا۔ پارلیمنٹ کی عمارت پر بم گرتے رہے اور لڑاکا طیارے انقرہ کی فضاؤں میں گرجتے رہے۔
بین الاقوامی برادری ایک غیر مستحکم ترکی کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ ترکی انتشار کا شکار ہے اور کوشش کر رہا ہے کہ شدت پسند تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ کو شکست دے سکے۔ تازہ فوجی بغاوت ثابت کرتی ہے کہ ترکی کی صورت حال بہت نازک ہے۔ ترکی تواتر کے ساتھ دہشت گردانہ حملوں کا شکار ہے اور خانہ جنگی کا سامنا بھی کر سکتا ہے۔ حکومت کو اس خطرے کو سنجیدگی سے لینا چاہیے۔
آئندہ ماہ اگست میں سپریم ملٹری کورٹ گولن تحریک سے منسلک فوجی افسران کو برخاست کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ کیا یہ بغاوت اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے؟ یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہوگا۔
اس خوف ناک صورت حال میں بہرحال ایک بات واضح ہے۔ آنے والا وقت ترکی کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے۔ یہ وقت سیاسی فوائد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ہر دہشت گردانہ حملے کے بعد ایردوآن کی جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی مزید مضبوط ہوئی ہے۔ اس بار دنیا حکومتی اقدامات کو مزید غور سے دیکھے گی۔ عالمی رہنما صدر ایردوآن کی حمایت کر رہے ہیں۔ جمہوریت کا استحکام اب ان کی حکومت کی اولین ترجیح ہونا چاہیے۔