اسامہ کی موت کے بعد امريکہ ميں افغانستان جنگ پر بحث ميں تيزی
4 مئی 2011صدر باراک اوباما نے جب سن 2009 ميں افغانستان کے بارے ميں امريکی پاليسی کی تشکيل نو کی تھی اور مزيد 30 ہزار فوجی روانہ کرنے کا اعلان کيا تھا تو اُس وقت ہی انہوں نے القاعدہ کی شکست کو اپنا اولين ہدف قرار ديا تھا۔
امريکی انتظاميہ کے افسران خبردار کرچکے ہيں کہ طالبان کو افغانستان ميں دوبارہ اقتدار ميں آنے کا موقع دينے سے يہ ملک ايک مرتبہ پھر شدت پسندوں کا ٹھکانہ بن جائے گا اور امريکہ ميں 11 ستمبر جيسے دہشت گردانہ حملے کا خطرہ پھر بڑھ جائے گا۔
ليکن اسلامی شدت پسندی کی سب سےطاقتور علامت بن لادن کی موت کے بعد امريکی عوام اور کانگريس اراکين ميں افغانستان کی جنگ کی حمايت ميں مزيد کمی ہو سکتی ہے۔ وعدے کے مطابق جولائی ميں افغانستان ميں امريکی فوج ميں کمی کی ابتدا کے حوالے سے بھی يہ بات بہت اہم ہے۔
جان ہوپکنس يونيورسٹی کے ايک پروفيسر ڈينئيل سرور نے کہا: ’’اس وقت جو سوال اٹھايا جانا ضروری ہے، ہ يہ ہے کہ کيا ہم اپنے اہم مفادات کا تحفظ کرنے کے ساتھ اپنے سابقہ پروگرام سے زيادہ تيز رفتاری سے افغانستان سے فوج نکال سکتے ہيں؟‘‘
امريکی تجزيہ نگاروں کا کہنا ہے کہ بن لادن ايک لمبا عرصہ پہلے ہی سے القاعدہ کی کارروائيوں ميں کوئی زيادہ بڑا حصہ نہيں لے رہے تھے۔ِ اس ليے بہت سے تجزيہ نگاروں کا يہ کہنا ہے کہ بن لادن کی موت سے اس علاقے سے ابھرنے والے خطرات ميں کمی نہيں ہوئی ہے اور خاص طور سے افغانستان ميں انتشار پھيل جانے کا خطرہ کم نہيں ہوا ہے۔
اگرچہ امريکی حکام نے بن لادن کی ہلاکت کو القاعدہ اور دوسرے عسکريت پسند گروپوں کو ديا جانے والا ايک طاقتور اشارہ قرار ديا ہے، ليکن وہائٹ ہاؤس اب افغانستان سے امريکی فوج کے تيز تر انخلاء کی توقعات کو روکنے کے ليے زيادہ محتاط نظر آتا ہے۔ اوباما حکومت کے ايک ترجمان جے کارنی نے صحافيوں کو بتايا کہ افغانستان سے متعلق اوباما کا جو منصوبہ موجود ہے وہی قائم رہے گا۔ اُنہوں نے جولائی سن 2011 سے افغانستان کی سلامتی کی ذمے داری افغان فوج اور پوليس کے حوالے کرنے کی ابتدا اور امريکی فوج ميں کچھ کمی کے منصوبے کو دہرايا۔ کارنی نے کہا: ’’امريکی فوج کے اس انخلاء کا دارومدار زمينی حقائق اور حالات پر ہوگا۔‘‘
صدر اوباما کے ايک قريبی ساتھی اور سينيٹ کی خارجہ امور کی کميٹی کے چئيرمين ڈيموکريٹ جان کيری نے بھی انہی خيالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا: ’’بن لادن کی موت کے بعد کچھ لوگ مجھ سے يہ کہيں گے کہ اب ہم افغانستان ميں اپنا بوريا بستر باندھ ليں۔ ليکن ہم ايسا نہيں کرسکتے۔‘‘
اس کے باوجود جنگ سے تنگ آئے ہوئے امريکی افغانستان ميں بڑی تعداد ميں امريکی فوج کی موجودگی برقرار رکھنے کی اس دليل کو مشکل ہی سے تسليم کريں گے۔ اس کے علاوہ يہ اوباما ہی تھے، جنہوں نے سن 2009 ميں ايک پاليسی بحث کے دوران افغانستان ميں امريکی مشن کو سختی سے القاعدہ سے جنگ کرنے اور طالبان کو نيچا دکھانے تک محدود رکھنے اور اسے باغيوں کو شکست دينے تک وسيع نہ کرنے کی بات کی تھی۔
سن 2009 کے بعد سے اوباما انتظاميہ ميں افغانستان کے بارے ميں خامياں ہيں جو جولائی سن 2011 کی، افغانستان ميں امريکی فوج ميں کمی کی تاريخ کے نزديک آنے کے ساتھ اور ابھر کر سامنے آئيں گی۔ امريکی حکام جولائی ميں امريکی فوج ميں اس کمی کے پروگرام پر بہر صورت عمل کرنا چاہتے ہيں، چاہے يہ کمی کتنی ہی معمولی يا علامتی کيوں نہ ہو۔ ليکن بہت سے فوجی افسران اس انخلاء کے بارے ميں محتاط رويہ اختيار کرنے کا مشورہ دے رہے ہيں۔
اوباما کو اپنی پاليسی پر تنقيد کا سامنا کرنا پڑا ہے جسے بہت سے اس ليے دھندلی سمجھتے ہيں کيونکہ اس ميں اپنی ٹيم ميں پائے جانے والے مختلف نظريات کو اکٹھا کرتے ہوئے ايک درميانی راہ اختيار کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ امريکی سينيٹ کی خارجہ امور کی کميٹی کے ايک سينئر ریپبليکن سينيٹر رچرڈ لوگر نے کہا کہ اوباما کو افغانستان کے بارے ميں ايک معقول تجزيہ پيش کرنا چاہيے کہ وہاں کيا کرنا ممکن ہے۔ انہوں نے کہا: ’’القاعدہ کے افغانستان سے بڑی حد تک نکل جانے اور دوسرے مقامات پر چلے جانے کے بعد افغانستان کی اب اتنی اہميت نہيں رہی کہ وہاں ايک لاکھ امريکی فوجيوں کی موجودگی اور سالانہ 100 ارب ڈالر کے اخراجات کو جائز کہا جا سکے۔‘‘
سابق بُش انتظاميہ کے ايک افسر اور اب ڈيوک يونيورسٹی کے پروفيسرپيٹر فيور نے کہا: ’’جو لوگ دو ہفتے قبل کہہ رہے تھےکہ افغانستان ميں فتح کا اعلان کرنے کا وقت آ پہنچا ہے، وہ اب يہ کہہ رہے ہيں، ديکھا، يہ فتح کا اعلان کرنے اور افغانستان سے نکل جانے کا وقت ہے۔‘‘
رپورٹ: شہاب احمد صديقی
ادارت: امجد علی