1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسانج کی سیاسی پناہ کی درخواست: ایکواڈور حکومت کا غور

21 جون 2012

ایکواڈور کی حکومت اس بات کی تصدیق پہلے ہی کر چکی ہے کہ جولیان اسانج نے ان کے ملک میں سیاسی پناہ کی درخواست کی تھی۔ اس حوالے سے ایکواڈور کے صدر کا اب کہنا ہے کہ اس درخواست پر غور کیا جا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/15IwB
تصویر: dapd

وکی لیکس کے بانی جولیان اسانج کو ان دنوں سویڈن کے حوالے کیے جانے کا خدشہ ہے۔ اسانج کو اندیشہ ہے کہ سویڈن حکومت کے حوالے کرنے کے بعد انہیں امکاناً امریکا کے حوالے بھی کیا جا سکتا ہے جہاں پہلے ہی وکی لیکس کو خفیہ معلومات افشاء کیے جانے پر ایک فوجی عدالت میں مقدمے کا سامنا ہے۔

اسانج کی سیاسی پناہ کی درخواست کے حوالے سے برطانوی وزارت خارجہ نے تصدیق کی ہے کہ انہیں درخواست کے بابت مطلع کردیا گیا ہے۔ ابھی گزشتہ ہفتے برطانوی سپریم کورٹ نے جولیان اسانج کی سویڈن حوالگی کی درخواست کو خارج کر دیا تھا۔

Ecuadorianische Botschaft in London
لندن میں ایکواڈور کے سفارتخانے کی عمارتتصویر: Reuters

اس درخواست کی مناسبت سے ایکواڈور کے صدر رافائل کورےیا (Rafael Correa) کا کہنا ہے کہ ایکواڈور ایک ایسا ملک ہے جو کسی انسان کے جینے کے حق کو تسلیم کرتا ہے اور نظریاتی بنیادوں پر کسی بھی شخص پر ہونے والے جبر کی مذمت کرتا ہے۔ ایکواڈور کے صدر کے مطابق اسانج کی درخواست میں پیش کیے گئے نکات پر غور کیا جا رہا ہے کہ کیا اسانج کی زندگی کو واقعی خطرہ ہے یا نہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اسانج کی ایکواڈور کو سیاسی پناہ کی درخواست ان لوگوں کے لیے ایک جواب ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ ایکواڈور میں آزادئ رائے کی اجازت نہیں۔

بائیں بازو کے لاطینی امریکی لیڈر کورےیا نے ان خیالات کا اظہار برازیل کے شہر ریو ڈی جینریو میں ’ارتھ سمٹ‘ کے موقع پر کیا۔ کورےیا نے یہ بھی کہا کہ اسانج نے سیاسی پناہ کے لیے جو وجوہات دی ہیں، ان کی باقاعدہ تصدیق کی جارہی ہے کہ یہ کتنی ٹھوس ہیں۔

اس سے قبل ایکواڈور کے وزیرِ خارجہ ریکارڈو پٹینو (Ricardo Patiño) نے بھی کہا تھا کہ جولیان اسانج کے مطابق انہیں ٹارگٹ کیا گیا ہے اور اس باعث ان کا ملک درخواست کا جائزہ لے رہا ہے اور اس پر غور کر رہا ہے کہ اسانج کو سیاسی پناہ دی جائے یا نہیں۔ ایکواڈور کی حکومت نے سن 2010 میں اسانج کو ریزیڈنسی کی پیشکش کی تھی۔ بعد میں کوئیٹو حکومت نے اپنی پیشکش سے پیچھے ہٹ گئی تھی۔ اس کا امکان ہے ظاہر کیا جاتا ہے کہ اسانج نے یہ معاملہ ایکواڈور کے صدر سے اپریل میں اس وقت اٹھایا ہو گا جب اسانج نے ان کا انٹرویو اپنے ٹیلی وژن پروگرام کے لیے ریکارڈ کیا تھا۔ اسانج کا ٹی وی شو روسی ٹیلی وژن چینل رشیا ٹو ڈے پر پیش کیا جاتا ہے۔

Ecuador Präsident Rafael Correa
ایکواڈور کے صدر رافائل کورےیاتصویر: AP

چالیس سالہ جولیان اسانج دو روز قبل منگل کو لندن میں قائم ایکواڈور کے سفارت خانے پہنچے تھے۔ ایکواڈور کی جانب سے انہیں پناہ دینے پر ان کے حامیوں نے اس کا خیرمقدم کیا ہے۔ تجزیہ کاروں کے خیال میں اگر اسانج کو سیاسی پناہ دے دی جاتی ہے تو اندرونِ ایکواڈور، صدر کورےیا کا پروفائل بہتر ہونے کے ساتھ ساتھ یہ امریکہ کے لیے ایک نئی دردسری ہو گی۔

سویڈن سے تعلق رکھنے والی دو خواتین کی جانب سے جولیان اسانج پر جنسی زیادتی کا الزام لگایا گیا تھا۔ اسانج کا مؤقف ہے کہ ان سے ربط و ملاپ باہمی رضامندی سے تھا۔ ان خواتین کے وکلاء پہلے ہی اس یقین کا اظہار کر چکے ہیں کہ جولیان اسانج کو بہت جلد سویڈش حکام کے حوالے کر دیا جائے گا۔

وکی لیکس کے بانی جولیان اسانج دسمبر سن 2010 سے اس مقدمے کا سامنا کر رہے ہیں۔ لندن کی ماتحت عدالت نے بھی ان کی سویڈن حوالگی کا ابتدائی فیصلہ سنایا تھا جو بعد میں برقرار رکھا گیا تھا۔ ان کو پولیس اسٹیشن روزانہ اپنی حاضری لگوانے کے علاوہ ٹخنے پر خصوصی نگرانی کا کڑا بھی پہنایا گیا ہے۔

ah/ss /AFP, Reuters)