استنبول حملہ ازبک جہادی ’ابو محمد خراسانی‘ نے کیا، ترک پریس
8 جنوری 2017استنبول سے اتوار آٹھ جنوری کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق اکتیس دسمبر اور یکم جنوری کی درمیانی شب جب دنیا کے دیگر ملکوں اور شہروں کی طرح ترکی کے اس سب سے بڑے شہر میں بھی سالِ نو کا استقبال کیا جا رہا تھا، آبنائے باسفورس کے کنارے ملکی اور غیر ملکی اشرافیہ میں بہت مشہور ایک مقامی نائٹ کلب میں اندھا دھند فائرنگ کر کے کم از کم انتالیس افراد کو ہلاک کر دینے والے مشتبہ عسکریت پسند کی شناخت کے بارے میں بہت سے شکوک و شبہات پائے جاتے تھے۔
اس دوران اب تک جاری تفتیش کی روشنی میں یہ اندازے بھی لگائے گئے تھے کہ ابھی تک مفرور یہ ملزم مبینہ طور پر شاید کوئی کرغیز باشندہ تھا یا پھر عوامی جمہوریہ چین کے مسلم اکثریتی علاقے سنکیانگ سے تعلق رکھنے والے کوئی ایغور مسلم شدت پسند۔
اب لیکن ترک انٹیلیجنس اور انسداد دہشت گردی کی پولیس کے ذرائع کے حوالے سے یہ دعوے سامنے آئے ہیں کہ یہ ملزم ایک ایسا 34 سالہ ازبک شہری ہے، جو شدت پسند تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش کی وسطی ایشیائی شاخ کا ایک سرکردہ رکن ہے۔
اس بارے میں ترک روزنامے ’حریت‘ اور دیگر ذرائع ابلاغ نے آج بتایا کہ اس ملزم کی شناخت سے متعلق اگرچہ ترک حکام نے تاحال کوئی باضابطہ تصدیق نہیں کی تاہم حکام کا یقین کی حد تک خیال ہے کہ یہ ملزم ایک ایسا ازبک جہادی ہے، جو داعش کے اندرونی حلقوں میں ’ابو محمد خراسانی‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
سال نو کے موقع پر استنبول میں کیے گئے اس دہشت گردانہ حملے میں جو 39 افراد مارے گئے تھے، ان میں سے 12 ترک باشندے تھے اور 27 کئی دوسرے ملکوں کے شہری، جن میں سے متعدد کا تعلق مختلف عرب ریاستوں سے تھا۔ رائنا نائٹ کلب پر یہ حملہ اس وقت کیا گیا تھا، جب نئے سال کو شروع ہوئے ابھی صرف سوا گھنٹہ ہوا تھا۔
اے ایف پی نے لکھا ہے کہ ترک پولیس اور خفیہ ادارے ابھی تک اس مفرور ملزم کی تلاش جاری رکھے ہوئے ہیں اور چند میڈیا رپورٹوں میں تو یہ دعوے بھی کیے گئے ہیں کہ یہ شدت پسند حملہ آور ممکنہ طور پر ابھی تک استنبول میں ہی کہیں چھپا ہوا ہو سکتا ہے۔ اس حملے کے بعد اس کی ذمے داری شدت پسند تنظیم داعش نے قبول کر لی تھی۔