استنبول نائٹ کلب حملہ ’اسلامک اسٹیٹ‘ نے کیا، ذمہ داری قبول
2 جنوری 2017’اسلامک اسٹیٹ‘ کی طرف سے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرنے کا اعلان اس شدت پسند تنظیم کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کیا گیا ہے۔ پیر دو جنوری کو جاری ہونے والے اس بیان کے مطابق ’خلافت کے ایک بہادر سپاہی نے ایک انتہائی مشہور نائٹ کلب کو نشانہ بنایا ہے، جہاں مسیحی اپنا باطلانہ تہوار مناتے ہیں‘۔ ترک حکام پہلے ہی یہ خیال ظاہر کر رہے تھے کہ بدستور مفرور حملہ آور کا تعلق شدت پسند تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے جہادیوں کے ساتھ ہے اور ممکنہ طور پر اُس کا تعلق وسطی ایشیائی ریاستوں کرغیزستان یا پھر اُزبکستان سے ہے۔
ترک تفتیش کاروں کا کہنا تھا کہ اس حملہ آور کا تعلق ممکنہ طور پر اُسی چھوٹے سے گروہ سے ہو سکتا ہے، جس نے گزشتہ سال جون میں استنبول کے اتا ترک ایئر پورٹ پر تہرے خود کُش بم دھماکے کرتے ہوئے سینتالیس افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔
ترک روزنامے ’حریت‘ کے مطابق امریکا کی جانب سے ترکی کو تیس دسمبر کو یہ انٹیلیجنس معلومات ملی تھیں کہ سالِ نو کی شب استنبول اور انقرہ میں ’اسلامک اسٹیٹ‘ کی جانب سے حملوں کا خطرہ ہے۔
اس سے پہلے عالمی سلامتی کونسل نے اتوار کی سہ پہر کو ایک بیان جاری کرتے ہوئے سالِ نو کے موقع پر استنبول کے رینا نامی نائٹ کلب پر اس خونریز حملے کی سخت الفاظ میں مذمت کی اور اسے ایک ’قابلِ نفرت اور وحشیانہ دہشت گردانہ حملہ‘ قرار دیا۔ اس بیان میں کہا گیا کہ دہشت گردی کا کوئی بھی اقدام ایک جرم ہے اور اُس کے پیچھے خواہ کوئی بھی محرکات ہوں اور وہ کہیں بھی، کسی بھی وقت اور کسی بھی شخص کی جانب سے کیا گیا ہو، اُسے کسی بھی طرح سے جائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔
کونسل کے ارکان نے دہشت گردی کو بین الاقوامی امن و استحکام کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا اور ایک بار پھر اس امر پر زور دیا کہ دہشت گردی کرنے والوں، اُس کے منصوبہ سازوں، اُس کے لیے مالی وسائل فراہم کرنے والوں اور اُس کی سرپرستی کرنے والوں کو عدالت کے کٹہرے میں لایا جانا چاہیے۔
اسی دوران دریں اثناء رینا نامی نائٹ کلب پر ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب ایک بج کر پندرہ منٹ پر حملہ کرنے والے شخص کی تلاش بڑے پیمانے پر جاری ہے۔ خدشہ ہے کہ یہ شخص، جو کلب کے دروازے پر کھڑے ایک پولیس افسر اور ایک شہری کو گولی مار کر ہلاک کرنے کے بعد اندر داخل ہونے میں کامیاب ہو گیا تھا، بعد ازاں کپڑے تبدیل کرتے ہوئے اور بھاگتے ہجوم میں شامل ہو کر جائے واردات سے فرار ہو گیا تھا۔ اس حملے میں بڑی تعداد میں غیر ملکیوں سمیت اُنتالیس افراد ہلاک جبکہ سعودی عرب کے دَس شہریوں سمیت پینسٹھ افراد زخمی ہو گئے تھے۔
یہ حملے ایک ایسے وقت ہوئے ہیں، جب ترک فوج کے اُس آپریشن کو چار مہینے ہونے والے ہیں، جس کا مقصد ایک طرف شام میں داخل ہو کر ’اسلامک اسٹیٹ‘ کا قلع قمع کرنا ہے اور دوسر ی جانب سرحدی علاقوں سے کُردوں کو پیچھے دھکیلنا ہے۔