اسرائیل: مذہبی تقریب میں بھگدڑ، درجنوں ہلاک
30 اپریل 2021اسرائیل کے شمالی شہر میرون میں 29 اپریل جمعرات کی رات کو ایک بڑی مذہبی تقریب میں بھگدڑ مچ جانے سے درجنوں افراد کی ہلاکت کی اطلاع ہے۔ اس شہر میں یہودیوں کے ایک مقبول مذہبی میلے 'لاگ بومر' میں شرکت کے لیے ہزاروں افراد جمع ہوئے تھے۔ امدادی کارکنان کا کہنا ہے کہ اس واقعے میں کم سے کم 38 افراد ہلا ک ہوئے ہیں جبکہ دیگر درجنوں لوگ زخمی ہو گئے۔
اسرائیلی ایمرجنسی سروس کے ایک ترجمان زاکی ہیلر کا کہنا تھا کہ اس واقعے میں، ''زخمی ہونے والے بیس افراد کی حالت نازک ہے۔ ان کے علاوہ دیگر درجنوں افراد کا علاج کیا جا رہا ہے۔''
اسرائیل کے وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے اس واقعے کو بڑی تباہی سے تعبیر کرتے ہوئے کہا، ''ہم سب متاثرہ افراد کی بھلائی کے لیے دعا گو ہیں۔'' صدر ریوین ریولن نے بھی اپنی ایک ٹویٹ میں کہا کہ اس واقعے پر ان کی نظر ہے اور وہ زخمیوں کی جلد صحت یابی کے لیے دعا کر رہے ہیں۔
فوری طور پر اس بات کی تصدیق نہیں ہو پائی کی آخر اتنے بڑے اجتماع کے دوران بھگدڑ کا یہ واقعہ کس وجہ سے پیش آیا۔ تاہم مقامی میڈیا کی ابتدائی رپورٹوں کے مطابق جہاں پروگرام ہو رہا تھا اس اسٹیڈیم میں نشست کا ایک حصہ اچانک ٹوٹ گیا جس کی وجہ سے افراتفری مچ گئی۔
بعد میں حکام نے بتایا کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بھگدڑ مچنے پر زیادہ تر لوگ دم گھٹنے یا پھر بھگدڑ میں روند جانے کی وجہ سے ہلاک ہوئے۔
کووڈ کے خطرات کے باوجود اجتماع
لاگ بومر کی یہ سالانہ تقریب میرون میں دوسری صدی کے معروف ربی شمعون بار یوچیائی کے مقبرے کے قریب منعقد کی جاتی ہے جس میں عموماً لوگ بڑی تعداد میں شرکت کرتے ہیں۔ گزشتہ برس کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے اسے منسوخ کر دیا گیا تھا۔
اس برس بھی محکمہ صحت کے حکام نے خبردار کیا تھا کہ اس طرح کے بڑے اجتماع سے وبا کے پھیلنے کا خدشہ ہے تاہم اس تنبیہ کے باوجود اس کے اہتمام کی اجازت دی گئی۔
حکام نے مقبرے کے آس پاس صرف دس ہزار افراد کے جمع ہونے کی اجازت دی تھی تاہم اس کے منتظمین کا کہنا ہے کہ ملک کے مختلف علاقوں سے ساڑھے چھ سو سے زیادہ خصوصی بسوں میں سوار ہو کر تیس ہزار سے بھی زیادہ لوگ میرون پہنچے تھے۔
ان کی حفاظت کے لیے تقریباً پانچ ہزار پولیس اہلکاروں کو تعینات کیا گیا تھا۔ تقریب کے دوران جگہ جگہ آگ روشن کرنے کا اہتمام کیا جاتا ہے اور پولیس حکام اس سے بھی باز رہنے کے احکامات دے رہے تھے۔
ص ز/ ج ا (ڈی پی اے، روئٹرز، اے ایف پی)