اسرائیل میں سماجی انصاف کے لیے ملک گیر مظاہرے
14 اگست 2011ہفتہ کو محض اسرائیل کے تجارتی مرکز تل ابیب میں 20 ہزار سے زائد افراد نے حکومت کے خلاف احتجاج ریکارڈ کروایا۔ اسے 7 اعشاریہ 7 ملین کی آبادی والی اس ریاست کا سب سے بڑا سماجی احتجاج قرار دیا جا رہا ہے۔ اسرائیل میں اس سے قبل اتنے بڑے پیمانے پر محض امن و سلامتی کے معاملے پر لوگ سڑکوں پر نکلتے تھے۔
مظاہروں کا یہ سلسلہ شمالی شہروں حافیہ اور افیولا سے لے کر جنوب میں ایلات کے شہر تک پھیلا ہوا تھا۔
مہنگائی کے خلاف سراپا احتجاج شہریوں نے حکومت مخالف نعروں والے بینر اٹھا رکھے تھے۔ ان کے راستوں پر ملک کے مشہور فن کار بھی اپنے ڈھنگ سے ان کا ساتھ دیتے ہوئے ماحول کو خوشگوار رکھے ہوئے تھے۔ ان مسلسل مظاہروں کے نتیجے میں حکومت پر دباؤ میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ وزیر اعظم بینجمن نیتین یاہو نے اقتصادی ماہرین کی ایک چودہ رکنی کمیٹی قائم کرکے اسے ایک مہینے کے اندر اصلاحات کے لیے تجاویز پیش کرنے کا کہا ہے۔
اسرائیل میں اقتصادی مسائل کا اندازہ مظاہرے میں شریک ایک نوجوان دانیئیل آئزلر کے ان خیالات سے لگایا جا سکتا ہے، ’’غریب اور امیر کے درمیان فرق دن بہ دن بڑھ رہا ہے، مگر اب لوگ تنگ آگئے ہیں، اچھی نوکریاں کرنے والے بھی سکون سے اپنا کنبہ نہیں پال پارہے۔‘‘
پولیس ذرائع کے مطابق 50 ہزار جبکہ آزاد ذرائع کے مطابق 70 ہزار سے زائد افراد نے مظاہروں میں شرکت کی۔ تل ابیب میں طالب علموں کے ایک ٹولے نے ایک مہینے سے احتجاجی کیمپ قائم کر رکھا ہے۔ یاد رہے کہ دائیں بازو کی جماعتوں کی اتحادی اسرائیلی حکومت نے اقتدار سنبھالنے سے قبل عوام سے بہت وعدے کیے تھے۔ ان میں سرکاری زمینوں پر عوامی بہبود کے منصوبے شروع کرنے، کم لاگت کے رہائشی منصوبے متعارف کروانے اور ٹرانسپورٹ کے اخراجات میں کمی کے وعدے شامل تھے۔ مظاہرین کے مطابق حکومت اب تک ان وعدوں پر عملدرآمد میں بری طرح ناکامی رہی ہے۔
رپورٹ: شادی خان سیف
ادارت: عدنان اسحاق