اسرائیل میں شمسی توانائی کے بلند ٹاور کی تعمیر کی جائے گی
5 جنوری 2017اسرائیل کی اقتصادیات میں روایتی طور پر زمین سے حاصل ہونے والے ایندھن پر انحصار کیا جاتا ہے۔ متبادل انرجی کے سیکٹر کو حکومتی ایوان میں کوئی زیادہ پذیرائی ابھی تک حاصل نہیں ہو سکی ہے۔ لیکن صورت حال بدلنا شروع ہو گئی ہے۔ اب حکومت نے متبادل توانائی پر توجہ مرکوز کرنے کا عندیہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ سن 2020 تک توانائی کا دس فیصد حصہ متبادل ذرائع سے حاصل کیا جائے گا۔
اسی تناظر میں صحرا ناگیو (عربی میں اس صحرا کو النقب کہا جاتا ہے) میں اشعلم پراجیکٹ کو بہت وقعت دی جا رہی ہے۔ اشعلم پراجیکٹ بنیادی طور پر سولر انرجی یا شمسی توانائی کا ایک وسیع علاقے پر پھیلا ہوا انتہائی بڑا منصوبہ ہے۔ یہ چار مختلف ٹکڑوں میں تقسیم ہے اور سن 2018 میں اس پراجیکٹ سے حکومت کو 310 میگا واٹ بجلی مہیا کی جا سکے گی۔
اس پراجیکٹ کی تکمیل کے بعد اسرائیل کے ایک لاکھ تیس ہزار گھروں یا پانچ فیصد آبادی کو متبادل ذرائع سے بجلی کی فراہمی ممکن ہو سکے گی اور یہ کل ملکی بجلی کی سپلائی کا تقریباً دو فیصد ہو گا۔ یہ اسرائیل کے اندر شمسی توانائی کا سب سے بڑا پراجیکٹ ہے۔
اس پراجیکٹ کا مرکزی حصہ ایک ٹاور پر مشتمل ہو گا، جو شمسی توانائی کے حصول کا ایک بڑا ذریعہ ہو گا۔ ڈھائی سو میٹر بلند اِس ٹاور پر فوٹو وولٹائی سیل نصب ہوں گے، جو ہمہ وقت سورج کی روشنی کو بجلی میں تبدیل کرنے کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔ اس ٹاور پر پچاس ہزار فوٹو وولٹائی عدسے بھی نصب کیے جائیں گے۔
اسرائیلی الیکٹرسٹی اتھارٹی کے مطابق یہ پراجیکٹ اسرائیل کی اُس کمٹ منٹ کا مظہر ہو گا کہ وہ سبز مکانی گیس یا کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کو کم کرنے میں سنجیدہ ہے۔ اشعلم پراجیکٹ کے حوالے سے یہ بھی اہم ہے کہ ایک بڑا اسٹوریج بنایا جائے گا، جہاں بجلی کو ذخیرہ کرنے کی سہولت موجود ہو گی۔ اس مقام پر متبادل انرجی کے تین مختلف ذرائع سے بجلی پیدا کی جائے گی۔