گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیل کا آبادی بڑھانے کا منصوبہ
27 دسمبر 2021اسرائیلی وزیر اعظم نیفتالی بینٹ نے اتوار کے روز کہا کہ ان کا ملک گولان کی پہاڑیوں پر رہنے والے یہودی آباد کاروں کی تعداد دوگنا کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ ان کی کابینہ نے اتوار کے روز ہی اس منصوبے کو منظوری دی۔
1967ء جنگ کے بعد اسرائیل نے گولان کی پہاڑیوں کو اپنے قبضے میں لے لیا تھا، جو ایک متنازعہ علاقہ ہے۔ تاہم سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے تین برس قبل اس پر اسرائیل کی خود مختاری کو تسلیم کر لیا تھا۔ نیفتالی بینٹ کا کہنا ہے کہ اس علاقے میں نئی سرمایہ کاری کا فیصلہ اسی امریکی فیصلے کے تناظر میں کیا گيا ہے۔
حالانکہ عالمی برادری نے ٹرمپ کے اس متنازعہ اعلان کی مذمت کی تھی کیونکہ متعدد مغربی ممالک ان مقبوضہ علاقوں کا اسرائیل کے ساتھ انضمام کو تسلیم نہیں کرتے۔ تاہم جو بائیڈن کی انتظامیہ نے بھی ٹرمپ کے اس فیصلے کو ابھی تک چیلنج کرنے کا کوئی اشارہ نہیں کیا ہے۔
منصوبہ کیا ہے؟
بینٹ نے کروڑوں ڈالر کے جس منصوبے کا اعلان کیا ہے اس کا مقصد اسٹریٹجک اعتبار سے اہم سطح مرتفع پر اسرائیل کی گرفت کو مزید مضبوط کرنا ہے۔ انہوں نے اس کا اعلان کرتے ہوئے کہا، "کمیونٹی لائف کے دائرہ کار کے حوالے سے کئی برسوں کی خاموشی کے بعد، آج ہمارا ہدف گولان کی پہاڑیوں کی آبادی کو دوگنا کرنا ہے۔"
انہوں نے کہا کہ اس کے تحت کتزرین قصبے میں دو نئے علاقے تعمیر کیے جائیں گے اور اس کے علاوہ آصف اور متر کے نام سے بھی دو نئی بستیاں تعمیر کی جانی ہیں۔ اس کے لیے تقریبا 31 کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری کا منصوبہ ہے۔
بحیرہ گیلی کے پاس کیبوز میو کاما میں ایک خصوصی حکومتی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے، بینٹ نے کہا کہ گولان کی پہاڑیوں کو اسرائیل میں قابل تجدید توانائی کا تکنیکی دارالحکومت بھیبننا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا، "شام میں تقریبا 10 برسوں کی خوفناک خانہ جنگی کے بعد، دنیا کا ہر باشعور شخص یہ سمجھتا ہے کہ ان پہاڑیوں کا اسرائیل کے پاس ہونا ہی بہتر ہے جو پرسکون ہونے کے ساتھ ہی پھلتی پھولتی رہیں اور سبزہ زار ہوں۔ گولان کی پہاڑیاں اسرائیل کی ہیں۔ یہ تو خود واضح ہے۔"
گولان کی پہاڑیاں اتنی اہم کیوں ہیں؟
اسرائیل نے سن 1967 میں شام کی گولان پہاڑیوں کو اپنے قبضے میں لے لیا تھا اور پھر 14 برس کے بعد، سن 1981 میں، انہیں اسرائیل میں ضم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ عالمی قوانین کے تحت یہ تمام علاقے آج بھی شام کی سرزمین تسلیم کی جاتی ہے اور اسرائیل کو اس پر قابض مانا جاتا ہے۔
اسرائیلی وزیر اعظم نیفتالی بینٹ نے یہ بات بھی تسلیم کی کہ نئی سرمایہ کاری کا فیصلہ، ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے اس علاقے کو اسرائیل کا حصہ تسلیم کرنے کے بعد اور موجودہ امریکی انتظامیہ نے بھی جون میں جو عندیہ دیا کہ وہ جلد ہی ٹرمپ کے اس فیصلے کو چیلنج نہیں کرے گی، اس کے بعد کیا گيا ہے۔
اسرائیل ایک طویل عرصے سے یہ دعوی کرتا رہا ہے کہ گولان، تمام عملی مقاصد کے لیے، مکمل طور پر اسرائیل میں ضم ہو چکا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ شام اور وہاں موجود ایران کے اتحادیوں سے تحفظ کے لیے دفاعی نکتہ نظر سے سطح مرتفع پر اس کا کنٹرول ضروری ہے۔
تاہم، گولان کی پہاڑیوں پر نئی تعمیرات کا یہ فیصلہ مستقبل میں شام کے ساتھ امن قائم کرنے کی کسی بھی کوشش کو مزید پیچیدہ بنا دے گا، جو اس خطے پر اپنا دعویٰ کرتا ہے۔
اس علاقے میں پچاس ہزار سے زیادہ لوگ رہتے ہیں۔ ان میں سے نصف سے زیادہ اسرائیلی یہودی ہیں، جبکہ باقی دروز اور تھوڑی تعداد میں علوی اقلیت کے لوگ بھی آباد ہیں۔
ص ز/ (اے پی ڈی پی اے)