اسرائیلی دستوں کے کئی فلسطینی سول گروپوں کے دفاتر پر چھاپے
18 اگست 2022مغربی کنارے کے فلسطینی علاقے میں رملہ سے جمعرات اٹھارہ اگست کو ملنے والی رپورٹوں کے مطابق ان سول گروپوں اور سماجی تنظیموں نے بتایا کہ اسرائیلی دستوں نے نہ صرف ان کے دفاتر سربمہر کر دیے بلکہ ان کے داخلی دروازوں کے آگے رکاوٹیں کھڑی کر کے یہ نوٹس بھی لگا دیے کہ یہ دفاتر اب بند کر دیے گئے ہیں۔
اسرائیلی موقف
اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ جن فلسطینی تنظیموں کے خلاف یہ کارروائی کی گئی، ان کے عسکریت پسند تنظیم پاپولر فرنٹ برائے آزادی فلسطین کے ساتھ رابطے تھے۔ یہ فرنٹ فلسطینیوں کی ایک سیکولر اور بائیں بازو کی ایسی تحریک ہے، جس کی ایک سیاسی جماعت بھی ہے۔
فلسطینیوں پر مظالم کی تفتیش، اسرائیل کا تعاون سے انکار
اس کے علاوہ پاپولر فرنٹ برائے آزادی فلسطین کا ایک مسلح بازو بھی ہے، جو ماضی میں اسرائیلی شہریوں پر ہلاکت خیز حملے کرتا رہا ہے۔ جہاں تک اسرائیل کی طرف سے دہشت گرد قرار دیے گئے ایسے فلسطینی گروپوں اور تنظیموں کے موقف کا سوال ہے تو وہ اپنے خلاف جملہ اسرائیلی الزامات کی پرزور تردید کرتے ہیں۔
کل بدھ سترہ اگست کے روز اسرائیلی وزیر دفاع بینی گینٹس کے دفتر کی طرف سے ایک بار پھر دعویٰ کیا گیا تھا کہ یہ ''گروپ اپنی انسان دوست سرگرمیوں کے پس پردہ اپنی حقیقی سرگرمیاں جاری رکھتے ہیں اور دہشت گرد تنظیم عوامی محاذ برائے آزادی فلسطین کے مقاصد کو آگے بڑھاتے ہوئے اسے مضبوط بناتے اور اس کے لیے بھرتیاں کرتے ہیں۔‘‘
دفاتر میں ’توڑ پھوڑ‘
جن فلسطینی سول رائٹس گروپوں کے دفاتر کو اسرائیل نے جمعرات کے روز سیل کر دیا، ان میں الحق نامی ایک سول گروپ بھی شامل ہے۔ الحق کے ڈائریکٹر شعوان جبارین نے نیوز ایجنسی اے پی کے ساتھ گفتگو میں تصدیق کی کہ ان کے ادارے کے دفاتر بھی سیل کر دیے گئے ہیں۔
شعوان جبارین نے کہا، ''اسرائیلی فوجی آئے، انہوں نے ہماری تنظیم کے دفتر کے دروازے کو دھماکے سے اڑا دیا۔ اندر داخل ہو کر دستاویزات کی تلاشی لی اور توڑ پھوڑ کی۔ ہماری تنظیم کا عملہ یہ طے کرنے کی کوشش میں ہے کہ آیا اسرائیلی دستے کچھ دستاویزات ضبط کر کے اپنے ساتھ بھی لے گئے۔‘‘
اسرائیلی کارروائی سیاسی کارکنوں کے خلاف ’کریک ڈاؤن‘ کا تسلسل
اس کارروائی سے متاثرہ فلسطینی سول گروپوں اور تنظیموں کے علاوہ شہری حقوق کے کئی سرکردہ کارکنوں نے بھی الزام لگایا ہے کہ اسرائیلی دستوں کی یہ تازہ کارروائی اسی ''کریک ڈاؤن کا تسلسل ہے، جو اسرائیل مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں سیاسی کارکنوں کے خلاف کئی عشروں سے جاری رکھے ہوئے ہے۔‘‘
'اسرائیل فلسطینیوں کے خلاف نسل پرستانہ برتاؤ کا مجرم ہے'، ایمنسٹی انٹرنیشنل
فلسطینی کارکنوں کا یہ موقف اس لیے بھی باوزن محسوس ہوتا ہے کہ گزشتہ ماہ جولائی میں یورپی یونین کے رکن ممالک میں سے نو ریاستوں نے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ اسرائیل جن فلسطینی گروپوں کو نشانہ بنا رہا ہے، اس نے ان کے خلاف اپنے دعووں کی تائید میں کوئی حقائق پیش نہیں کیے۔
اسی لیے ان نو یورپی ممالک نے یہ بھی کہا تھا کہ وہ آئندہ بھی ان فلسطینی سول گروپوں کے ساتھ مل کر کام کرتے رہیں گے، جن پر اسرائیل نے انہیں دہشت گرد قرار دے کر پابندیاں لگا رکھی ہیں۔
متاثرہ فلسطینی سول گروپ کون کون سے
اسرائیلی دستوں کی کارروائی کا نشانہ بننے والے گروپوں اور تنظیموں کے بارے میں الحق کے ڈائریکٹر شعوان جبارین نے کہا، ''فلسطینی سول گروپوں کے خلاف ایسے اسرائیلی الزامات نئے نہیں ہیں۔ لیکن اسرائیل تو اپنے دوستوں تک کو اپنے دعووں کی سچائی کا قائل نہیں کر سکا۔‘‘
فلسطینی خاتون صحافی کے جنازے پر اسرائیلی پولیس کا حملہ
مغربی کنارے کے فلسطینی علاقے میں جن سول تنظیموں کے خلاف یہ کارروئی کی گئی، ان میں فلسطینیوں کے حقوق کے لیے سرگرم اور بین الاقوامی سطح پر احترام کی نگاہ سے دیکھنے جانے والے گروپ الحق کے علاوہ الضمیر، فلسطینی خواتین کی کمیٹیوں کی یونین، زرعی کارکنوں کی کمیٹیوں کی یونین اور بیسان مرکز برائے تحقیق و ترقی بھی شامل ہیں۔ ان میں سے الضمیر خاص طور پر ایک ایسی سول تنظیم ہے، جو فلسطینی قیدیوں اور ان کے حقوق کے دفاع کے لیے سرگرم رہتی ہے۔
اسرائیل نے الحق، الضمیر اور بیسان سمیت متعدد فلسطینی سول تنظیموں کو سات ماہ قبل قانوناﹰ ممنوع قرار دے دیا تھا۔
م م / ع ا (اے پی، اے ایف پی)