اسرائیلی فلسطینی کشیدگی میں کمی کے لیے اقدامات پر اتفاق
14 نومبر 2014عمان سے موصولہ نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو اور اردن کے شاہ عبداللہ ثانی کے ساتھ اپنی بات چیت کے بعد امریکی وزیر خارجہ نے کہا کہ اسرائیل کی طرف سے اپنے ریاستی علاقے میں شامل کردہ مشرقی یروشلم میں مقدس مقامات کے حوالے سے موجودہ صورت حال کے تسلسل یا status quo کو بحال رکھنے کے لیے ’ٹھوس وعدے‘ کیے گئے ہیں۔
یروشلم کے مقدس شہر میں مسجد اقصیٰ کی دیکھ بھال اور نگرانی کے حقوق اردن کے پاس ہیں۔ اس پس منظر میں جان کیری نے صحافیوں کو بتایا کہ اسرائیل اور اردن کے مابین اس مقصد کے تحت اقدامات پر اتفاق رائے ہو گیا ہے کہ یروشلم میں ’اعتماد کی بحالی اور کشیدگی میں کمی‘ ہونی چاہیے۔
امریکی وزیر خارجہ نے جمعرات کی رات اردن کے وزیر خارجہ ناصر جودہ کے ساتھ عمان میں ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا، ’’ہم یہاں پر اس نوعیت کے ہر قدم کی عملی تفصیل میں نہیں جائیں گے۔ زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ایسے اقدامات کیے جائیں اور وہ مؤثر ثابت ہوں۔‘‘
جان کیری کے مطابق یہ بات ان پر واضح ہو چکی ہے کہ اردن اور اسرائیل موجودہ کشیدگی میں کمی کے لیے اقدامات کے حوالے سے سنجیدہ ہیں اور ضرورت اس بات کی ہے کہ اس بارے میں اعتماد بحال ہو کہ مقامات مقدسہ کی حیثیت میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔
جان کیری کے مشرق وسطیٰ کے موجودہ دورے اور اسرائیل اور اردن میں سفارتی کوششوں کا مقصد یہ ہے کہ مشرقی یروشلم میں پائی جانے والی اس کشیدگی میں کمی ہونی چاہیے جو گزشتہ چند مہینوں کے دوران مسلسل زیادہ ہوتی رہی ہے۔ مقبوضہ عرب مشرقی یروشلم سے شروع ہونے والی یہ بے چینی حالیہ دنوں کے دوران مغربی کنارے کے مقبوضہ علاقے اور اسرائیل کے اندر عرب آبادی والے خطوں تک میں پھیل گئی تھی اور یہ خدشہ پیدا ہو گیا تھا کہ صورت حال مزید خراب ہو کر فلسطینیوں کی طرف سے ایک نئی انتفادہ یا مزاحمت کی شکل بھی اختیار کر سکتی ہے۔
یروشلم میں اس بے چینی اور بد امنی کے زیادہ تر حصے کی وجہ اسرائیل کے وہ اقدامات بنے، جن کے ذریعے اس نے شہر کے مشرقی حصے میں یہودیوں کی آباد کاری کے منصوبوں میں تیزی کا فیصلہ کیا۔ اس کے علاوہ ایک بڑی وجہ مسجد اقصیٰ کے احاطے میں پائی جانے والی مذہبی کشیدگی بھی تھی۔ یہ تاریخی مقام مذہبی حوالے سے مسلمانوں اور یہودیوں دونوں ہی کے لیے مقدس ہے۔
فلسطینیوں میں بہت زیادہ اشتعال انتہائی دائیں بازو کے یہودیوں کے ایک گروپ کی اس مہم کی وجہ سے بھی پایا جاتا ہے کہ یہودیوں کو مسجد اقصیٰ کی عمارت کے اندر عبادت کی اجازت ملنی چاہیے۔ اس مہم کے جواب میں اسرائیلی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ مسجد اقصیٰ سے متعلق اپنی موجودہ سوچ میں تبدیلی کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی اور وہاں عشروں سے چلا آ رہا ’سٹیٹس کو‘ برقرار رہے گا۔
جان کیری کے بقول انہوں نے عمان ہی میں جمعرات کی صبح فلسطینی صدر محمود عباس کے ساتھ بھی ملاقات کی تھی، جس دوران ایسے ٹھوس اور تعمیری اقدامات پر گفتگو کی گئی، جن کی مدد سے اسرائیل اور فلسطینیوں کے مابین موجودہ کشیدگی کم کی جا سکے۔