وسطی غزہ میں نئی اسرائیلی زمینی کارروائی شروع
5 جون 2024اسرائیلی دفاعی افواج نے بتایا ہے کہ وسطی غزہ میں شروع کی جانے والی 'آپریشنل کارروائی‘ میں زیر زمین آپریشن بھی کیا جائے گا۔ بتایا گیا ہے کہ دیر البلاح اور البریج کے مشرقی حصوں میں یہ کارروائی کی جائے گی۔ یہ وہی علاقہ ہے، جہاں سن 1948 کی جنگ کے بعد فلسطینیوں کا مہاجر کیمپ بنایا گیا تھا۔
اسرائیلی فوج کے مطابق اسی مقام پر حماس کے جنگجوؤں کے ایک انفراسٹرکچر پر فضائی حملوں سے یہ کارروائی شروع ہوئی تھی اور اب اسرائیلی فوجی دن کی روشنی میں ان دونوں مقامات پر حتمی کارروائی کریں گے۔
اسرائیلی فوج کے مطابق ان مقامات پر فوجی کمپاؤنڈز اور اسلحے کے ذخیروں کو تباہ کر دیا گیا اور وہاں زیر زمین انفراسٹرکچرز کا بھی پتہ چلا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ وسطی غزہ پٹی میں اس اسرائیلی کارروائی میں حماس کے متعدد جنگجو مارے گئے ہیں۔
جرمن عوام کی اکثریت غزہ میں اسرائیلی فوجی کارروائیوں کے خلاف
ایک تہائی سے زائد یرغمالی مارے جا چکے ہیں، اسرائیلی حکومت
غزہ پٹی میں بڑھتی ہوئی بھوک اور پیاس
غزہ پٹی میں گزشتہ تقریباﹰ آٹھ ماہ سے جاری اس مسلح تنازعے کے نتیجے میں غزہ کی فلسطینی آبادی کو بڑے پیمانے پر بھوک کا سامنا ہے جبکہ ان لوگوں کے پاس ادویات اور پینے کا صاف پانی تک نہیں رہا۔
بین الاقوامی مذاکرت کار سیز فائر کی کوششوں میں ہیں۔ قطر، امریکہ اور مصر کی ثالثی میں جنگ بندی کا ایک منصوبہ تیار کیا گیا ہے۔ اس منصوبے کے تحت یرغمالیوں کی رہائی اور سیز فائر کی بات کی گئی ہے۔ قطر کا کہنا ہے کہ اس ڈیل کا مجوزہ مسودہ اسرائیل اور حماس دونوں کے پاس ہے اور ان کے جوابات کا انتظار کیا جا رہا ہے۔
سیز فائر کی کوششیں تیز تر
امریکی صدر جو بائیڈن نے گزشتہ ہفتے اس منصوبے کا اعلان کیا تھا، جس پر عمل درآمد تین مرحلوں میں غزہ میں جنگ بندی ممکن بنا سکتا ہے۔ لیکن اسرائیلی سیاستدان اس مجوزہ ڈیل پر متفق نہیں ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ حماس کی فوجی طاقت کو ختم کیے بغیر اس لڑائی سے پیچھے نہ ہٹا جائے۔
جنگ بندی کی امریکی تجویر، ’نیتن یاہو پھنس چکے ہیں‘
صدر بائیڈن نے غزہ میں جنگ بندی کا نیا منصوبہ پیش کر دیا
اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے بھی دہرایا ہے کہ حماس کو 'نیست و نابود‘ کیے بغیر یہ لڑائی ختم نہیں ہو گی۔ تاہم وہ اس وقت شدید دباؤ میں ہیں کہ حماس کی قید میں موجود یرغمالیوں کو واپس لایا جائے۔
امریکی صدر جو بائیڈن کی طرف سے تجویز کردہ سیز فائر ڈیل میں کہا گیا ہے کہ اسرائیلی فورسز غزہ میں جنگ بندی کریں گی اور بدلے میں حماس کے جنگجو تمام اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کر دیں گے۔
اس منصوبے میں البتہ ایسا کوئی واضح تذکرہ نہیں کہ حماس کو غزہ کا انتظام چلانے سے روک دیا جائے گا یا اس عسکری گروہ کو تباہ کر دیا جائے گا۔
ادھر حماس اپنے موقف پر قائم ہے کہ غزہ میں مکمل جنگ بندی اور اسرائیلی فواج کے انخلا تک اسرائیل سے جنگ بندی کی کوئی ڈیل نہیں کی جائے گی۔
یہ تنازعہ کیسے شروع ہوا؟
سات اکتوبر کو حماس کے عسکریت پسندوں نے غزہ پٹی سے اسرائیلی سرزمین میں داخل ہو کر اچانک حملہ کر دیا تھا، جس کے نتیجے میں تقریباﹰ 1200 افراد مارے گئے تھے جبکہ یہ جنگجو 250 کے قریب افراد کو یرغمال بنا کر اپنے ساتھ غزہ پٹی بھی لے گئے تھے۔
’رفح کے وسط تک پہنچ گئے ہیں،‘ اسرائیلی فوج
اسرائیلی فوج کے رفح پر حملوں میں شدت
ان یرغمالیوں میں سے اب بھی تقریباﹰ ایک سو زندہ ہیں اور ان کے ساتھ ساتھ 30 یرغمالیوں کی جسمانی باقیات بھی ابھی تک حماس کے جنگجوؤں کے قبضے میں ہیں۔
اس دہشت گردانہ حملے کے بعد سے اسرائیل نے غزہ پٹی میں حماس کے ٹھکانوں کو تباہ کرنے کے لیے خصوصی عسکری آپریشن شروع کر رکھا ہے۔ یہ عسکری کارروائی تقریباً آٹھ ماہ سے جاری ہے۔ اس دوران غزہ پٹی میں ہزاروں کی تعداد میں شہری ہلاکتیں بھی رپورٹ کی گئی ہیں۔
غزہ پٹی میں حماس کے طبی ذرائع نے بتایا ہے کہ اسرائیلی فوجی کارروائیوں کے دوران اب تک مجموعی ہلاکتوں کی تعداد سینتیس ہزار کے قریب پہنچ چکی ہے، جن میں بہت بڑی تعداد بچوں اور خواتین کی تھی۔
ع ب / ک م، م م (اے ایف پی، روئٹرز، ڈی پی اے)