اسرائیلی وزیر دفاع نے شامی صدر اسد کو ’فتح مند‘ قرار دے دیا
4 اکتوبر 2017خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اسرائیلی وزیر دفاع نے ایک اسرائیلی نیوز ویب سائٹ Walla سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’اسد اس جنگ میں فتحیاب ہو کر ابھرے ہیں۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ’’اچانک ہر کوئی اب اسد کے قریب ہونے کی کوشش میں ہے۔‘‘
ایوگڈور لیبرمان کا اس نیوز ویب سائٹ سے گفتگو کے دوران کہنا تھا، ’’میں دیکھ رہا ہوں کہ اب ایسے ممالک کی ایک طویل قطار ہے جو اسد کی تعریف اور توصیف کر رہے ہیں، ان میں مغربی ممالک اور اعتدال پسند سنی مسلم ریاستیں بھی شامل ہیں۔‘‘
شامی صدر بشار الاسد کے خلاف مارچ 2011ء سے جاری بغاوت اور خانہ جنگی کا پلڑا اُس وقت سے اسد کی جانب جھکنے لگا تھا جب روس نے اپنی فورسز 2015ء میں شام میں اتاری تھیں اور شامی فورسز کو باغیوں اور داعش کے خلاف جاری آپریشن میں مدد فراہم کرنا شروع کی۔ یکے بعد دیگرے ملنے والی فتوحات کے بعد اب شامی فورسز ملک کے زیادہ تر علاقے پر کنٹرول حاصل کر چکی ہیں۔
اے ایف پی کے مطابق اسرائیلی کی طرف سے ابتداء میں بشارالاسد سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ ملک کی سربراہی چھوڑ دیں تاہم بعد ازاں اسرائیلی حکام کی طرف سے کوشش کی گئی کہ وہ اس تنازعے میں بہت زیادہ نہ الجھیں۔
تاہم اسرائیل کی طرف سے اسد کے حامی ملک ایران پر الزامات عائد کیے جاتے رہے ہیں کہ وہ لبنان کی حزب اللہ کو جدید ہتھیار فراہم کر رہا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ اسرائیل نے کئی مرتبہ شام کے اندر ایسے قافلوں پر حملے بھی کیے جن کے بارے میں اسرائیل کا خیال تھا کہ وہ شیعہ تنظیم حزب اللہ کے لیے ہتھیار لے جا رہے تھے۔ اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے گزشتہ برس یہ تسلیم کیا تھا کہ اسرائیل نے ایسے درجنوں قافلوں کو نشانہ بنایا تھا جو حزب اللہ کے لیے ہتھیار لے جا رہے تھے۔
اسرائیلی وزیر دفاع ایوگڈور لیبرمان نے امید ظاہر کی کہ امریکا شامی تنازعے کے حوالے سے اپنا کردار بڑھائے گا: ’’ہمیں امید ہے کہ امریکا شام میں خاص طور پر اور مشرق وسطیٰ میں عمومی طور پر زیادہ فعال ہو گا۔‘‘