اسرائیلی وزیر دفاع کا غیر معمولی اعتراف حقیقت
20 اپریل 2010اسرائیلی کابینہ کے ایک اہم رکن کے طور پر ایہود باراک کا یہ بیان اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ گزشتہ ہفتوں اور مہینوں میں مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں عالمی برادری کی شدید تنقید اور مخالفت کے باوجود اسرائیل نے یہودی آبادکاروں کے لئے نئی رہائش گاہوں کی تعمیر سے متعلق جو پالیسی اپنائے رکھی، وہ امریکی اسرائیلی تعلقات میں غیر معمولی حد تک کشیدگی کا سبب تو بنی ہی تھی، لیکن اب اسی کچھاؤ نے شاید وزیر اعظم نتن یاہو کی حکومت کو زمینی حقائق تسلیم کرنے پر مجبور بھی کر دیا ہے۔
ایہود باراک نے اسرائیل کے ایک پبلک ریڈیو کے ساتھ انٹرویو میں کہا کہ اسرائیل کو فلسطینیوں کے ساتھ اپنے مرکزی اختلافات کو اس طرح حل کرنا ہوگا کہ اس وجہ سے واشنگٹن کے ساتھ روابط میں وہ کشیدگی پیدا نہ ہو جو کسی بھی طور اسرائیل کے حق میں نہیں۔
اپنے اس انٹرویو میں ایہود باراک نے کہا کہ اسرائیل کو فلسطینیوں کے ساتھ اپنے اہم ترین اختلافات کو اس طرح ختم کرنے کی کوشش کرنا ہو گی کہ پہلے ایک نئی سیاسی پیش رفت شروع کی جائے اور پھر یروشلم کی حتمی حیثیت، فلسطینی مہاجرین کے مسئلے، یہودی بستیوں کے مستقبل اور بین الاقوامی سرحدوں کے تعین جیسے معاملے بھی طے کئے جائیں۔
اسرائیلی وزیر دفاع کے اس انٹرویو کا پس منظر اردن کے شاہ عبداللہ کا وہ اخباری انٹرویو بھی ہے جس میں انہوں نے امریکی جریدے شکاگو ٹریبیون کے ساتھ بات چیت میں ابھی حال ہی میں کہا تھا کہ اگر مشرق وسطیٰ کے خطے میں اس سال موسم گرما تک کوئی نئی امن پیش رفت نہ ہوئی، تو ایک نئے مسلح تنازعے کے امکانات بہت زیادہ ہو جائیں گے۔
شاہ عبداللہ کے اس مؤقف کے رد عمل میں ایہود باراک نے اپنے ریڈیو انٹرویو میں کہا کہ ان کی رائے میں اس سال موسم گرما میں مشرق وسطیٰ میں کسی نئی جنگ کے شروع ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے اور اسرائیل لبنان میں حزب اللہ کے خلاف بھی کسی نئی فوجی کارروائی کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔
وزیر دفاع نے ملکی ریڈیو پر اپنا یہ مؤقف پیر کو اس دن بیان کیا جب میموریل ڈے کی تقریبات میں ان قریب 23 ہزار اسرائیلی فوجیوں اور شہریوں کو یاد کیا جا رہا تھا، جو آج تک مختلف مسلح حملوں اور عسکریت پسندانہ کارروائیوں میں مارے جا چکے ہیں۔ اپنی سوچ کے اظہار میں ایہود باراک نے غیر معمولی حد تک کھلے پن کا مظاہرہ کیا اور کہا کہ اسرائیل کو یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ دنیا مزید کئی عشروں تک فلسطینیوں اور فلسطینی علاقوں پر اسرائیلی حکمرانی کو برداشت نہیں کرے گی۔
ایہود باراک نے اپنے اس انٹرویو میں یہ بھی کہا کہ جس طرح اسرائیل نے فلسطینی علاقوں کو اپنی حکمرانی میں لے رکھا ہے، اس کی ’’آج کی دنیا میں کہیں اور کوئی مثال نہیں ملتی۔‘‘ اسرائیلی وزیر دفاع کے اس مؤقف پر تبصرہ کرتے ہوئے جرمن اخبار Neue Osnabrücker Zeitung نے لکھا ہے کہ ایہود باراک نے ایک کامیاب سپاہی کے طور پر اپنے تجربات کو استعمال میں لاتے ہوئے قبضے کی اسرائیلی سیاست پر جو تنقید کی ہے، اس نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وزیر اعظم نتن یاہو کی قیادت میں یہ ریاست اپنی فوجی طاقت پر انحصار کا جو پیغام دے رہی ہے، وہ دراصل اپنے طور پر کوئی بڑی یا قابل ذکر بات نہیں ہے۔
اس جرمن اخبار نے اپنے تبصرے پر سرخی یہ لگائی کہ جو رک جاتا ہے، وہ ڈوب جاتا ہے۔ اس اخبار نے لکھا کہ فوجی طاقت اس وقت قیمتی اثاثہ ہوتی ہے جب اس کی مدد سے سیاست کو زیادہ سے زیادہ شراکت داروں کے ساتھ روابط قائم کرنے اور انہیں مضبوط بنانے کا موقع بھی ملے۔ ’’لیکن نتن یاہو حکومت نے اپنی پیش رو حکومت کے مقابلے میں آبادکاری اور قبضے کی سیاست کے باعث یہی کام اور بھی کم کیا ہے۔‘‘
رپورٹ: مقبول ملک
ادارت: عاطف بلوچ