'اسرائیلیوں سے بچ کے رہنا‘
11 مئی 2021مسلم دنیا میں اسرائیل کو خطے کے سب سے بڑے وِلن کے طور پہ دیکھا جاتا ہے۔ کئی سال پہلے جب میں بی بی سی کا بیروت میں نامہ نگار تھا تو اس 'ولِن‘ پر رپورٹنگ میری ذمہ داریوں کا حصہ تھی۔ اس 'ولن‘ کے کردار کو سمجھنا میری صحافتی ضرورت تھی لیکن کچھ اپنا شوق اور تجسس بھی تھا، سو میں بیروت سے یروشلم کے سفر پر نکل پڑا۔
لبنان کی اسرائیل کے ساتھ لمبی سرحد ہے جہاں سے وہ ایک دوسرے پر حملے کرتے رہے ہیں۔ میرا وہاں کے پہاڑی علاقے شیبا فارمز کے نزدیک تک جانا ہوا۔ وہاں سے آپ اسرائیل کو دیکھ سکتے ہیں لیکن جا نہیں سکتے۔
اس کے لیے مجھے بیروت سے پہلے اردن جانا پڑا اور پھر وہاں سے سڑک کے راستے شاہ حسین پُل پار کر کے میں اسرائیل میں داخل ہوا۔
اسرائیل کے سفر سے پہلے پاکستان میں کچھ خیرخواہوں نے مفت مشورہ دیا، ''کچھ بھی ہو، بس یہودیوں سے بچ کے رہنا۔ یہ لوگ کبھی مسلمانوں کے دوست نہیں ہو سکتے۔‘‘
بھلا ایسا ہو سکتا ہے کہ آپ اسرائیل جائیں اور یہودیوں سے بچ کے رہیں؟ بلکہ میں تو جا ہی اسی لیے رہا تھا کہ اس 'مخلوق‘ سے بھی کچھ آشنائی ہو، جس کی 'صیہونی سازشوں‘ کے بارے میں بچپن سے سنتے آئے لیکن اس بارے میں کبھی کچھ کر نہ پائے تھے۔
دل میں یہ بھی سوچا کہ ہم مسلمان خود کون سے بڑے نیک، قابل اعتبار اور پیار بانٹنے والے ہیں۔ عقیدے کے نام پر جتنا غضب ہم نے خود اپنے اوپر ڈھایا ہے اتنا تو کسی اور نے نہیں ڈھایا۔
ویسے بھی ہم مانتے نہیں لیکن پاکستان اور اسرائیل میں کئی باتیں مشترک ہیں۔ دونوں ملک مذہب کے نام پر وجود میں آئے۔ دونوں تاریخ کی بدترین خون ریزی، مذہبی منافرت اور نقل مکانی کے بعد دنیا کے نقشے پر ابھرے۔ دونوں کی پیدائش میں انگریزوں کا بڑا ہاتھ تھا۔
دونوں کی قومی نفسیات میں عدم تحفظ اور دشمنوں میں گھرے ہونے کا خوف کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ پڑوسیوں کے ساتھ جنگ و جدل کی بات ہو، ایٹمی ہتھیاروں کا حصول ہو یا ملک کو نیشنل سکیورٹی اسٹیٹ میں بدلنے کا جواز، دونوں ملکوں میں 'ریاستی اداروں‘ کا کردار سب پر حاوی رہا ہے۔
اپنے اس سفر میں جب میں مقبوضہ مشرقی یروشلم پہنچا تو وہاں دور سے ہی قبة الصخرة کا سنہری گنبد نظر آیا۔ تصاویر میں اسے دیکھنا ایک بات ہے، لیکن اس تاریخی مقام کو آنکھوں کے سامنے پایا تو لگا جیسے خواب دیکھ رہا ہوں۔ اسے عظیم الشان عمارت کو ہم میں سے بعض لوگ مسجد الاقصیٰ سمجھتے ہیں۔ لیکن درحقیقت مسجد قبة الصخرة کے قریب ہی کچھ فاصلے پر واقع ہے۔
حرم شریف جانے کے لیے آپ کو قدیمی شہر کی تنگ سی پتھریلی گلیوں سے گزر کر جانا پڑتا ہے۔ اس مسلم اکثریتی علاقے کا اصل مقامی نام بیت المقدس ہے۔ فلسطینی وہاں نسلوں سے رہتے آئے ہیں، جنہیں وہاں سے نکالنے کے لیے اسرائیلی حکام، عدالتیں اور انتظامیہ وقتاﹰ فوقتاﹰ حرکت میں آتے رہے ہیں۔
حرم شریف کے داخلی راستوں پر اسرائیلی گارڈ تعینات ہوتے ہیں جبکہ اندر کا نظام اردن کے محکمہ اوقاف کے حوالے رہا ہے۔ اسرائیلی حکام کو خدشہ رہا ہے کہیں یہودی انتہاپسند مسلمانوں کے مقدس دنوں میں کسی طرح اندر گھس کر کوئی تماشا نہ کر بیٹھیں، جیسا کہ اس بار بھی دیکھا گیا۔ اس لیے وہاں سکیورٹی سخت رہتی ہے اور جمعہ کے دن عام طور پر غیر مسلموں کا داخلہ بند ہوتا ہے۔
جن دنوں میں وہاں تھا، ماحول کشیدہ نہیں تھا۔ میری خوش قسمتی تھی کہ اسرائیلی سکیورٹی اور اردن کے حکام سے کلیئرنس مل گئی اور میں نے مسجد اقصیٰ میں جمعے کی نماز پڑھی اور حرم شریف کے اندر جانے کی سعادت بھی نصیب ہوئی۔
لیکن فلسطینیوں کو مسلسل خدشہ ہے کہ کٹر یہودی گروہ حرم شریف پر کنٹرول کے لیے سازشوں میں لگے رہتے ہیں۔ حماس کے مطابق مسجد الاقصیٰ کا معاملہ ایک ٹائم بم ہے جو کسی بھی اسرائیلی اشتعال انگیزی کے بعد پھٹ سکتا ہے۔ سن دو ہزار میں اسی مقام پر اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان تکرار نے دوسری انتفادہ کو جنم دیا تھا، جس کے بعد فلسطینی خود کش حملوں کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا، جس میں کئی بے گناہ عام اسرائیلی شہری بھی مارے گئے۔
اسرائیل اچھی طرح جانتا ہے کہ حرم شریف کا معاملہ صرف فلسطینیوں کے لیے ہی نہیں بلکہ پوری مسلم دنیا کے لیے نازک ہے اور اس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ اسرائیل کو مہنگی پڑ سکتی ہے۔ لیکن ساتھ ہی اسے یہ بھی احساس ہے کہ امریکا، یورپ اور خود عرب دنیا کے حکمران اس معاملے پر ایک حد تک ہی مزاحمت اور بیان بازی کرتے ہیں۔
سب کے اپنے اپنے مفادات ہیں، جنہیں فلسطینیوں کے لیے کوئی بھی داؤ پر لگانے کے لیے تیار نہیں۔ بلکہ پچھلے ایک سال کے دوران جیسے جیسے عرب ملکوں نے اسرائیل کو تسلیم کرنا شروع کیا ہے، اس کے بعد یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ فلسطینی اسرائیلی مسئلے کے دو ریاستی حل کی خواہش اب خواب بن کر ہی رہ گئی ہے۔
اسرائیل فوجی اور اقتصادی لحاظ سے ایک مضبوط ملک ہے۔ وہ خود کو ایک جمہوری ملک بھی کہتا ہے اور شاید اس کے جمہوری ادارے پاکستان کی نسبت بہتر بھی ہوں۔ لیکن بطور ایک نیشنل سکیورٹی اسٹیٹ کے وہاں بھی حساس معاملات پر تنقید اور بحث مباحثے کی گنجائش محدود رہی ہے۔
اسی لیے مسلم دنیا کو فلسطینیوں کے ساتھ جو ظلم و زیادتیاں نظر آتی ہیں، اسرائیلی معاشرے میں سول سوسائٹی اور بائیں بازو کے کچھ سیاستدانوں کے علاوہ باقی ماندہ ملک انہیں دیکھنے سے قاصر ہے۔
طاقت کے اس کھیل میں جب تک اسرائیلی اسٹیبلشمنٹ پر قیامِ امن کے لیے مسلسل اندرونی اور بیرونی دباؤ نہیں ہوگا، اسے اپنا رویہ بدلنے کی کوئی خاص ضرورت محسوس نہیں ہو گی۔ فی الحال یہ آگ یونہی سلگتی رہے گی اور مسلم حکمران مذمتی بیانات کے اجراء اور اظہار تشویش سے زیادہ کچھ نہ کر پائیں گے۔