اسقاط حمل پر پابندی مسئلے کا حل نہیں
5 جون 2022عین کی عمر ستائیس سال تھی۔ وہ گزشتہ برس ستمبر میں حاملہ ہوئی تھی۔ وہ گھریلو تشدد کی ایک منہ بولتی مثال تھی۔ اس کا شوہر اسے مارتا پیٹتا تھا جبکہ گھریلو ناچاقی اس کے لیے سوہان روح بن چکی تھی۔
براعظم افریقہ کے ملک کینیا کی باسی عین مزید ظلم سہنا نہیں چاہتی تھی۔ تین بچوں کی ماں نے بہت ظلم سہا جبکہ اس کے شوہر کے ایک دوسری خاتون کے ساتھ جنسی تعلقات بھی ہیں، جو عین کے لیے ناقابل برداشت تھے۔
عین کا کہنا تھا کہ اس صورتحال میں وہ ایک نیا بچہ اس دنیا میں نہیں لانا چاہتی۔ اس کے بقول بھوک، غربت، ناچاقی اور تشدد ایسے عوامل ہیں، جو اس کے نئے بچے کو بھی نگل لیں گے۔ یہ تمام باتیں عین کی ایک دوست نے خبر رساں ادارے تھومس روئٹز فاؤنڈیشن کو بتائیں۔
کینیا ایک ایسا ملک ہے، جہاں اسقاط حمل پر قانونی طور پر پابندی ہے۔ تاہم جو خواتین ماں نہیں بننا چاہتیں، وہ غیر قانونی طریقے سے اسقاط حمل کراتی ہیں تاہم اس طرح یہ عمل طبی لحاظ سے ماں کے لیے خطرناک ہو جاتا ہے۔
اس کے علاوہ جو خواتین اسقاط حمل کراتی ہیں، وہ معاشرتی سطح پر ایک بری خاتون قرار دے دی جاتی ہیں۔ یوں وہ ایک اچھی خاتون ہونے کا اعزاز کھو دیتی ہیں، جس سے وہ نفسیاتی اور دیگر سماجی مسائل کا شکار بھی ہو سکتی ہیں۔
عین نے ان تمام تر پابندیوں کے باوجود گولیاں کھا کر اپنا حمل گرانا چاہا۔ اس نے ایک ایسے میڈیکل اسٹور سے یہ گولیاں حاصل کی تھیں، جو رجسٹرڈ نہیں تھا۔ تاہم عین کے مسائل اتنے زیادہ تھے کہ اس نے کچھ نہ سوچا کیونکہ وہ ایک نئے بچے کو دنیاوی عذاب میں مبتلا کرنے کا باعث نہیں بننا چاہتی تھی۔
شاید عین کے پاس کوئی راستہ نہ تھا لیکن اگر کینیا میں اسقاط حمل کو قانونی تحفظ حاصل ہوتا اور ضرروت مند خواتین کو یہ سہولیات سرکاری سطح پر یا نجی سیکٹر کی طرف سے مہیا کی جا رہی ہوتی تو شاید کہانی کچھ اور ہوتی۔ لیکن ایسا نہ تھا۔
عین کی ایک دوست نے بتایا کہ جب اس نے اسقاط حمل کی گولیاں کھائیں تو اس کی طبعیت بگڑ گئی اور علاج کی سہولیات نہ ہونے کے باعث وہ کچھ دن بعد ہی ہلاک ہو گئی۔
کینیا ہی نہیں دنیا کے کئی ایسے ممالک ہیں، جہاں اسقاط حمل پر پابندی ہے۔ زیادہ تر ممالک میں اس عمل کو ایک ''گناہ‘‘ سمجھا جاتا ہے، اس لیے وہاں مذہبی حوالوں سے اسقاط حمل پر پابندی عائد کی گئی ہے۔ یوں دنیا بھر میں چھپ کر اسقاط حمل کرانے کی کوشش میں مر جانے والی خواتین کی تعداد بھی مخفی ہی رہ جاتی ہے۔
انسانی حقوق کے کارکنان کا کہنا ہے کہ اسقاط حمل پر پابندی کے باعث دنیا بھر میں حاملہ خواتین کی اموات میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور اگر اس حوالے سے فوری ایکشن نہ لیا گیا تو صورتحال ابتر ہو سکتی ہے۔ بالخصوص اگر امریکہ میں بھی ایسا ہی ہوا تو دیگر کئی ممالک کے لیے یہ ایک مثال بھی بن سکتا ہے۔
امریکی سپریم کورٹ ایک ایسے کیس کے حوالے سے فیصلہ سنانے والی ہے، جس کے تحت امریکہ میں ملگ گیر سطح پر اسقاط حمل کو قانونی تحفظ ممکن ہے۔ تاہم انسانی حقوق کے کارکنان نے خبردار کیا ہے کہ اگر سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے تحت اسقاط حمل کو غیر قانونی قرار دے دیا گیا تو عین کی طرح امریکا میں ہزاروں خواتین موت کے منہ میں جا سکتی ہیں۔
اسقاط حمل کے حامیوں کے مطابق اس عمل کو آسان اور محفوظ بنانا چاہیے کیونکہ یہ ممکن نہیں کہ پابندیاں عائد کر کے کسی کو حمل گرانے سے روکا جا سکتا ہے لیکن ان حالات میں حاملہ خواتین کی غیر محفوظ اسقاط حمل کی کوشش میں جان ضرور جا سکتی ہے۔
دنیا کے چھبیس ممالک میں اسقاط حمل پر مکمل پابندی ہے، جن میں مصر، فلپائن اور مڈغاسکر جیسے ممالک بھی شامل ہیں۔
دنیا کے پچاس ممالک میں حمل گرانے کی اجازت صرف اسی وقت دی جا سکتی ہے، جب ماں کی صحت کو خطرات کا سامنا ہو۔ پاکستان بھی انہی ممالک کی فہرست میں آتا ہے۔ ان ممالک میں ریپ، کسی قریبی رشتہ دار یا اجتماعی زیادتی کا نشانہ بن کر حاملہ ہونے والی خاتون کو بھی اسقاط حمل کی باقاعدہ سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔
بہت سے ممالک میں اسقاط حمل کرانے والی خواتین اور طبی عملے کے ارکان کے لیے سخت سزائیں تجویز کی گئی ہیں۔ ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ ان سزاؤں کی وجہ سے بچہ پیدا نہ کرنے کی خواہش رکھنے والی لڑکیاں اور خواتین اسقاط حمل کے لیے انتہائی قدم بھی اٹھا لیتی ہیں، جو جان لیوا بھی ہو سکتے ہیں۔
عالمی ادارہ صحت کے ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال اسقاط حمل کے پچیس ملین غیر محفوظ کیس ہوتے ہیں جبکہ کم ازکم ہر برس اس دوران انتالیس ہزار خواتین اور لڑکیاں ہلاک ہو جاتی ہیں۔
ان میں سے زیادہ تر ہلاکتیں ایسی خواتین کی ہوتی ہیں، جو غربت کا شکار ہوتی ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے اعدادوشمار کے مطابق ایسی سالانہ اموات میں افریقہ سر فہرست ہے۔، جہاں اسقاط حمل کروانے والی ساٹھ فیصد خواتین غیرمحفوظ طریقوں سے اسقاط حمل کرانے کی کوشش میں ماری جاتی ہیں۔ ایشیائی ممالک میں ہونے والی ایسی اموات کی شرح تیس فیصد بنتی ہے۔
ع ب، ع ا (ٹامس روئٹرز فاؤنڈیشن)