اسلام آباد: صحافیوں کا پارلیمنٹ کے سامنے دھرنا
15 جون 2011اس دھرنے کی قیادت پاکستان فیڈرل یونین آٓف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) کے راہنما کر رہے ہیں جبکہ دیگر صحافتی تنظیموں کے علاوہ اراکین پارلیمان، وکلاء اور سول سوسائٹی کے نمائندے بھی اس دھرنے میں شریک ہیں۔ مظاہرین نے اس موقع پر جینا ہو گا مرنا ہوگا، دھرنا ہو گا ، دھرنا ہوگا۔۔۔ حق کی خاطر لڑنا ہوگا، دھرنا ہو گا، دھرنا ہوگا کے نعرے بھی لگائے۔
پی ایف یو جے کے صدر پرویز شوکت نے ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس احتجاجی دھرنے کے ذریعے صحافی سلیم شہزاد کے قتل کی تحقیقات کے لیے قائم کیے گئے عدالتی کمیشن پر عدم اعتماد کا اظہار کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ سلیم شہزاد کے علاوہ گزشتہ چند سالوں میں 72 صحافیوں کو قتل کر دیا گیا ۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعظم اور چیف جسٹس کو اس بات کا نوٹس لینا چاہیے اور حکومت اس بات کو انا کا مسئلہ نہیں بنانا چاہیے۔ ’یہ جمہوری حکومت ہے اور جمہوریت کی بحالی کے لیے فیڈرل یونین آٓف جرنلسٹس اور صحافیوں کی بے پناہ قربانیاں ہیں۔‘
اس دھرنے میں صحافیوں سے اظہار یکجہتی کے لیے شریک ہونیوالے سابق وزیر قانون اور انسانی حقوق کے کارکن اقبال حیدر کا کہنا تھا کہ جمہوری دور میں صحافیوں کا مسلسل قتل عام انتہائی تشویشناک ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کو چاہیے تھا کہ وہ عدالتی کمیشن کا سربراہ سپریم کورٹ کے جج کو بناتی۔ انہوں نے کہا کہ فیڈرل شریعت کورٹ کا یہ کام ہی نہیں ہے۔ آٓرٹیکل ’203 ڈی‘ میں کہیں نہیں لکھا گیا کہ وفاقی شرعی عدالت تحقیقات عمل میں لائے گی۔ ’حکمرانوں نےجان بوجھ کر ایک ایسی شخصیت کو متنازعہ بنا دیا ہے،اور یہ جانتے ہوئے کہ یہ کمیشن کام نہیں کر پائے گا۔ وفاقی شرعی عدالت کے چیف جسٹس کی شخصیت کو پاکستان کے عوام قبول نہیں کریں گے۔‘
دھرنے میں شریک حکمران پاکستان پیپلز پارٹی کی رکن اسمبلی فرح ناز اصفہانی کاکہنا تھا کہ صحافیوں کی جمہوریت کی بحالی کے لیے خدمات گراں قدر ہیں اور وہ حکومت کی نمائندگی کرتے ہوئے اس احتجاج میں شریک ہوئی ہیں۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ اس مظاہرے میں شریک ہو کر کیا اس بے بسی کا اظہار کر رہی ہیں کہ حکومت صحافیوں کے تحفظ کے لیے کچھ نہیں کر سکتی؟ فرح ناز نے اس سوال کے جواب میں کہا کہ جو حکومت وقت نے کہا تھا،جو پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے کہا تھا، جو صحافیوں کے مطالبے تھے، انہوں نے اس کے تحت جوڈیشل کمیشن بنایا ہے۔
عالمی صحافتی تنظیمیں پہلے ہی پاکستان کو صحافیوں کے لیے خطرناک ترین ملک قرار دے چکی ہیں۔ خیال رہے کہ ایشیاء ٹائمز آٓن لائن کے بیورو چیف سلیم شہزاد کے 31 مئی کو اغواء اور قتل کے بعد صحافتی حلقوں میں تشویش بہت بڑھ چکی ہے۔
یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ صحافتی تنظیمیں پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے اتنا طویل دھرنا دے رہی ہیں۔ صحافیوں کے دھرنے کے موقع پر شاہراہ دستور پر سخت حفاظتی بھی انتظامات کیے گئے ہیں۔
رپورٹ: شکور رحیم، اسلام آباد
ادارت: شامل شمس