1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسلام آباد میں امام بارگاہ پر حملہ، کم از کم تین افراد ہلاک

کشور مصطفیٰ18 فروری 2015

پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد کی ایک امام بارگاہ پر آج بدھ کے روز نماز کے دوران کیے گئے دہشت گردانہ حملے میں کم از کم تین افراد ہلاک اور دو دیگر زخمی ہو گئے۔

https://p.dw.com/p/1EeIL
تصویر: picture-alliance/AP/A. Naveed

زخمیوں کو پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز PIMS پہنچا دیا گیا جہاں ترجمان ڈاکٹر عائشہ خان نے بعد ازاں صحافیوں کو بتایا کہ ایک زخمی آپریشن تھیٹر میں ہی دم توڑ گیا۔ اس حملے میں ہلاک ہونے والے باقی دو افراد موقع پر ہی مارے گئے تھے۔

ڈاکٹر خان کے بقول ایک زخمی کی حالت نازک ہے۔ اسلام آباد پولیس کے مطابق اس دھماکے میں ہلاک ہونے والوں میں ایک سکیورٹی گارڈ بھی شامل ہے۔ اطلاعات کے مطابق خود کُش حملہ آور نے مسجد میں داخل ہونے سے پہلے ہی فائرنگ شروع کر دی تھی۔

اسلام آباد پولیس کے ایک ترجمان نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ جس دوران حملہ آور پولیس کے ساتھ ہاتھا پائی کر رہا تھا، اُسی وقت مسجد کے اندر موجود نمازیوں نے مسجد کا دروازہ اندر سے بند کر دیا تھا۔

پاکستان میں جنوری کے آخر میں صوبہ سندھ کے شہر شکارپور میں طالبان سے قربت رکھنے والے ایک دہشت گرد گروہ کی طرف سے شیعہ مسلمانوں کی ایک امام بارگاہ پر کیے گئے ایک خونریز حملے میں بھی ساٹھ افراد ہلاک ہو گئے تھے جبکہ گزشتہ ہفتے شمال مغربی پاکستان میں بھی ایک شیعہ مسجد کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ اس واقعے میں بھی کم از کم 23 انسانی جانیں ضائع ہوئی تھیں۔

Pakistan Bombenanschlag auf eine Moschee in Shikarpur 30.01.2015
شکارپور میں شیعہ مسلمانوں کی ایک امام بارگاہ پر 30 جنوری کو ہونے والا خونریز حملہتصویر: Reuters/A. Hussain

بدھ کو اسلام آباد میں ہونے والا دہشت گردانہ حملہ ملک میں اس نوعیت کے فرقہ ورانہ حملوں کی تازہ ترین مثال ہے۔ پاکستان گزشتہ دو برسوں سے فرقہ ورانہ تشدد کی آگ کی لپیٹ میں ہے۔ یہ حملے خاص طور سے انتہا پسند سُنی مسلم مسلح گروپوں کی طرف سے شیعہ مسلمانوں کو نشانہ بنا کر کیے جا رہے ہیں۔ پاکستان میں قریب ہر پانچواں مسلم شہری ایک شیعہ مسلمان ہے۔

گزشتہ سال جون سے پاکستانی فوج نے شمالی وزیرستان اور دیگر قبائلی علاقوں میں تحریک طالبان پاکستان اور دیگر عسکریت پسندوں کے خلاف ایک بڑا آپریشن شروع کر رکھا ہے۔ پاکستانی فوج اپنے اس آپریشن کی کامیابی کے دعوے کر رہی ہے، جس میں فوج کے اعداد و شمار کے مطابق اب تک دو ہزار سے زائد عسکریت پسند مارے گئے ہیں۔ ہلاک ہونے والے دہشت گردوں کی اصل تعداد اور اُن کی شناخت کے بارے میں آزاد ذرائع سے تصدیق ممکن نہیں ہے۔

گزشتہ برس دسمبر میں پشاور میں ایک اسکول پر دہشت گردانہ حملے میں قریب 150 افراد کی ہلاکت کو، جن میں سے زیادہ تر معصوم بچے تھے، ملک کے اندر اور بیرون ملک پاکستان میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے رجحان کے تناظر میں گہری تشویش کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔

Pakistan Bombenanschlag auf Moschee 30.01.2015
شکار پور کی امام بارگاہ پر حملے میں درجنوں ہلاکتیں ہوئی تھیںتصویر: Reuters/A. Hussain

پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر حملے کے بعد وزیر اعظم نواز شریف نے ملک میں سزائے موت دیے جانے پر عائد چھ سالہ پابندی ختم کرنے کا اعلان کر دیا تھا، جس کے بعد سے اب تک متعدد دہشت گردوں کو سنائی گئی سزائے موت پر عمل درآمد کیا جا چکا ہے۔ وفاقی حکومت کا یہ اقدام بھی عسکریت پسند گروپوں کے غصے میں اضافے کا سبب بنا ہے۔

دریں اثناء پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف نے اپنے ایک بیان میں اسلام آباد کی امام بارگاہ پر آج کیے گئے دہشت گردانہ حملے کی مذمت کرتے ہوئے حکام سے زخمیوں کو بہترین طبی امداد فراہم کرنے کا حکم دیا ہے۔