اسلام آباد میں تین روزہ رنگا رنگ ادبی میلہ اختتام پذیر
16 اپریل 2017اسی طرح کی ایک مفصل گفتگو چودہ اپریل کو شروع ہونے والے تین روزہ سالانہ اسلام آباد لٹریچر فیسٹیول کے اختتامی دن اتوار سولہ اپریل کو ہوئی، جس میں معروف دانشور اور شاعر حارث خلیق کی نئی کتاب کرِمزن پیپرز Crimson Papers کی رونمائی بھی شامل تھی۔ اس گفتگو میں حارث خلیق کےعلاوہ سیاستدان افراسیاب خٹک، سکالر رسول بخش رئیس، آرٹس کی نقاد نوید شہزاد اور تجزیہ نگار خیام مشیر بھی شامل تھے۔
عوام میں پذیرائی حاصل کرتی ہوئی یہ کتاب چار مضامین کا مجموعہ ہے، جس کا موضوع تاریخ، سیاست، سماج اور ادب ہیں۔ گفتگو کے شرکاء اس بات پر متفق تھے کہ سرکاری تاریخ پر مکمل انحصار کے بجائے ایک عوامی تاریخ کی ترتیب و تدوین ملکی مستقبل بہتر بنانے کے لیے اہم ہے۔
نوید شہزاد نے آمریت کی طرف سے ملکی تاریخ مسخ کرنے پر روشنی ڈالی جب کہ افراسیاب خٹک نے عوامی آزادیوں کو پہنچنے والے نقصانات پر گفتگو کی۔ رسول بخش رئیس نے ریاستی اور جمہوری اداروں پر عدم توجہی کے منفی اثرات جب کہ خیام مشیر نے سماجی اور ادبی شعبوں میں مجرمانہ قدغنوں پر اظہار خیال کیا۔ حارث خلیق نے کہا کہ ان تمام مصائب کا سامنا عوام نے شاعری، ادب، فلم، تھیٹر، مصوری، ڈانس اور موسیقی کے ذریعے اپنے اوپر ریاستی جبر کا مقابلہ کرتے ہوئے کیا۔ عوام نے اپنے تاریخی، سماجی، سیاسی اور ثقافتی مستقبل کا تحفظ تخلیقی اور مستقل مزاجی سے کیا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستانی معاشرے کی ابھی تک جاری اس جنگ میں مایوسی تو ہے لیکن ناامیدی نہیں۔
فیسٹیول کا ایک اور اہم سیشن ادبی تحقیق کار اور نقاد منیزہ شمسی کی نئی تصنیف Hybrid Tapestries تھی۔ یہ منفرد کتاب انگریزی میں تصنیف کیے گئے پاکستانی ادب کے تاریخی ارتقاء کی ترتیب پر مشتمل ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کی سات سو صفحات پر مشتمل اس کتاب کا مقصد انگریزی زبان میں پاکستانیوں کے تخلیق کردہ ادب سے ملکی اکثریت کی عدم واقفیت کو کم کرنا ہے۔
کتاب کی تقریب رونمائی کی نشست کے دوران شرکاء کے مابین اس بات پر بھی بحث ہوئی کہ انگریزی زبان کا ادب پاکستان کا نمائندہ ادب ہے یا نہیں۔ شریک گفتگو لسانیات کے ماہر ڈاکٹر طارق رحمان، انگریزی ادب کی ماہر تعلیم عروسہ کنول اور انگریزی زبان کے شاعر وقاص خواجہ نے اس موضوع کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔ یہ ماہرین اس بات پر متفق نظر آئے کہ دراصل زبان سے زیادہ اہم ادب ہے اور پاکستان جیسا کثیراللسانی ملک کسی بھی زبان بشمول انگریزی میں معیاری ادب تخلیق کر سکتا ہے۔
اس فیسٹیول کا ایک اور اہم سیشن اردو اور فارسی کے معروف پاکستانی شاعر افتخار عارف کے ساتھ ان کی زندگی اور شاعری سے متعلق ایک نشست تھی۔ اس نشست میں ان کے ساتھ گفتگو میں ادبی نقاد آصف فرخی اور ادیب و شاعر حارث خلیق شریک تھے، جنہوں نے بھرپور طریقے سے افتخار عارف کے ساتھ مل کر ان کے زندگی کے کئی اہم ظاہر اور مخفی پہلوؤں پر روشنی ڈالی، جن میں ضیاالحق کے زمانے میں ان پر مصائب، ان کی ہجرت اور ان کی اوئل عمری کے مختلف دلچسپ واقعات بھی شامل تھے۔
افتخار عارف نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ’’میں شاعری کے علاوہ بھی بس شاعری ہی کرتا ہوں کیونکہ یہی میرا اوڑھنا بچھونا ہے۔‘‘
اس موقع پر شرکاء کے اصرار پر انہوں نے اپنی کئی نظمیں اور غزلیں بھی سنائیں، جن میں سب سے زیادہ پذیرائی ان کی نظموں ’بارہواں کھلاڑی‘ اور ’کتاب کیچڑ میں گڑ پڑی‘ کو ملی۔ حاصل گفتگو افتخار عارف کا یہ اعتراف تھا کہ انہوں نے اپنی زندگی میں تو شاید کچھ جھوٹ بولے ہوں گے مگر اپنی شاعری میں کبھی جھوٹ نہیں بولا۔
اسی فیسٹیول کا ایک اور کامیاب سیشن کمال فن حاصل کرنے والی مشہور و معروف شاعرہ کشور ناہید کی نئی کتاب ’پاکستان کی تہذیب و ثقافت تھی‘ کی رونمائی کا تھا۔ رونمائی کی اس تقریب کے میزبان ماہر فلسفی اور تاریخ دان اشفاق سلیم مرزا تھے۔ کشور ناہید نے اپنی کتاب میں سے اقتباسات بھی پڑھے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ظلم ہے کہ ہماری متنوع ثقافت کو ہماری تاریخ میں وہ جگہ نہیں ملی جس کی وہ حقدار ہے۔ اور جس کا نتیجہ یہ ہے کہ عام طور پر ہمارے عوام اور خاص طور پر نوجوان بہت سے حقائق سے ناواقف ہیں۔ ایک کثیرالثقافتی ملک میں تقسیم ہند کے نتیجے میں ہجرت، نئی جہتوں اور آمیزشوں نے کس طرح ہماری ثقافتوں کو نئے رنگ دیے، ان کو تسلیم کرنا اپنے آپ کو ثقافتی طور پر امیر کرنا ہے۔
اس تین روزہ آکسفورڈ ادبی میلے میں کل چالیس نشستوں کا اہتمام کیا گیا، جن میں مختلف ادیبوں، شعراء، ادبی نقادوں، تجزیہ نگاروں، سکالرز، صحافیوں اور عوام کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ اس موقع پر مختلف پبلشرز کی طرف سے کئی کتابوں کے اسٹالز بھی لگائے گئے، جہاں پر مختلف موضوعات پر ہزاروں کتب رعایتی نرخوں پر دستیاب تھیں۔ یہ بھی ایک بڑی وجہ تھی کہ اس سال اس میلے میں راولپنڈی اسلام آباد سے ہزارہا شہریوں نے شرکت کی۔
اسلام آباد لٹریچر فیسٹیول میں جگہ جگہ نظر آنے والے کئی مناظر یہ تھے کہ عام شہری اور قارئین مختلف ادیبوں کے پیچھے پیچھے ان کی کتابوں پر ان سے آٹوگراف لینے کے لیے دوڑتے دیکھے گئے۔ یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ پاکستان میں صرف کھلاڑی، سیاستدان اور مذہبی اسکالر ہی مقبول نہیں بلکہ مصنفین، ادیبوں اور شعراء کا بھی معاشرے میں بہت احترام کیا جاتا ہے۔