اسلام آباد میں پارلیمنٹ کے سامنے احتجاجی دھرنے جاری
20 اگست 2014تناؤ کی صورت حال اس وقت پیدا ہوئی جب عوامی تحریک کے مظاہرین نے اپنے رہنما طاہر القادری کے کہنے پر پارلیمنٹ ہاؤس کی عمارت کا عین اس وقت گھیراؤ کر لیا جب اندر قومی اسمبلی کا اجلاس جاری تھا۔ ان حالات میں ایف سی اور رینجرز کے اہلکاروں نے طاہر القادری کے حامیوں کو پارلیمنٹ کے مرکزی دروازے تک ہی محدود رکھا۔
ریڈ زون میں شاہراہ دستور پر تمام اہم سرکاری عمارتوں کی سکیورٹی اس وقت فوج کے پاس ہے لیکن فوجی ان عمارتوں کے احاطے میں موجود ہیں جبکہ باہر پولیس، ایف سی اور رینجرز کے جوان ڈیوٹی دے رہے ہیں۔
تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے بھی گزشتہ شب وزیر اعظم نواز شریف کے مستعفی نہ ہونے کے بعد اپنے کارکنوں کے ہمراہ آج بدھ کی شب وزیر اعظم ہاؤس میں گھسنے کا اعلان کر دیا تھا۔ اس کے بعد فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی جانب سے ایک بیان جاری کیا گیا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ شاہراہ دستور پر موجود عمارتیں ریاست کی علامتیں ہیں اور ان کی حفاظت فوج کر رہی ہے۔
سیاسی رابطوں میں تیزی
حکومت کی جانب سے طاہر القادری کے ساتھ مذاکرات کی کوششیں بدھ کو اس وقت بار آور ثابت ہوئیں جب حکومتی وزراء خواجہ سعد رفیق اور عبدالقادر بلوچ ایم کیو ایم کے رہنما حیدر عباس رضوی اور رکن قومی اسمبلی اعجازالحق کے ساتھ مذاکرات کے لیے پہنچے۔ اس سے قبل پاکستان عوامی تحریک (پی اے ٹی) کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری نے اسلام آباد میں پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر دھرنے میں شریک اپنے کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ مذاکرات کے حامی ہیں، لیکن کوئی بھی ان کے ساتھ مذاکرات کے لیے نہیں آیا۔
انہوں نے کہا کہ حکومت مذاکراتی ٹیمیں بھیجنےکا جھوٹا پروپیگنڈہ کررہی ہے۔ طاہر القادری نے کہا کہ کارکن دھرنا جاری رکھیں لیکن پارلیمنٹ کا محاصرہ ختم کر دیں۔ انہوں نے کہا، ’’میں نے جو پہلے بات کی تھی، اس کو بھی منسوخ کرتا ہوں۔ جو جاتا ہے، جانے دیں۔ جو آتا ہے، آنے دیں۔ دھرنا برقرار رکھیں مگر دروازوں کے آگے اتنا فاصلہ دے کر کہ کوئی یہ جھوٹا الزام نہ لگا سکے کہ تشدد ہو رہا ہے۔‘‘
اس موقع پر ایم کیو ایم کے رہنما حیدر عباس رضوی کا کہنا تھا، ’’ڈاکٹر صاحب نے بہت حوصلہ افزا بات کی ہے۔ مھجے لگ رہا ہے کہ یہ ڈیڈ لائن ختم ہونے والی ہے۔ ہم جا رہے ہیں حکومت کے پاس۔ تو حکومت کا ایک اعلیٰ سطحی وفد جو ان کے اعلیٰ سطحی وفاقی وزراء پر مشتمل ہو گا، انشا اللہ، ان کو ساتھ لانے کی پوری کوشش کریں گے یا وہ آزادانہ طور پر بھی ہیں تو ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں۔‘‘
عمران خان کی جانب سے ابھی تک حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لیے رضا مندی ظاہر نہیں کی گئی۔
قومی اسمبلی کا اجلاس
بدھ کے روز قومی اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے امیر مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ موجودہ صورتحال میں وزیر اعظم نواز شریف کھل کر اعلان کریں کہ وہ مستعفی نہیں ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ تمام سیاسی جماعتیں پارلیمنٹ، آئین اور جمہوریت کی مضبوطی کے لیے وزیر اعظم کے ساتھ ہیں۔
پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے کہا کہ عمران خان اور طاہر القادری احتجاج کے دوران انتہائی گری ہوئی زبان استعمال کر رہے ہیں جو قابل قبول نہیں۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ ملک کے 18 کروڑ عوام کی نمائندہ ہے جبکہ شاہراہ دستور پر طاہر القادری کی طرف سے لگائی گئی عوامی پارلیمنٹ کو کسی بھی طور تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔
عمران خان اور طاہر القادری کو نوٹس
اسی دوران پاکستانی سپریم کورٹ نے ملک میں ممکنہ بغاوت کو روکنے کے لیے دائر کردہ درخواستوں پر عمران خان اور طاہر القادری کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کل جمعرات کو جواب طلب کر لیا ہے۔ چیف جسٹس ناصرالملک کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بنچ نے ملک کی مختلف بار ایسوسی ایشنوں کی جانب سے ملک کے موجودہ حالات کے بارے میں دائر کردہ درخواستوں کی سماعت کی۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر کامران مرتضیٰ نے سماعت کے آغاز پر کہا کہ دھرنوں کی وجہ سے آج عدالت میں وکلاء اور سائلین نہ پہنچ سکے اور بہت سے مقدمات ملتوی کرنا پڑے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ججوں کو بھی آج بہت لمبے راستے سے عدالت آنا پڑا۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کر کے کہا کہ یہاں اس مسئلے کو بھی مدنظر رکھا جائے کہ درخواست گزاروں، عدالتی افسران اور سپریم کورٹ اسٹاف کو ڈیوٹی پر آنے میں مشکل ہے، جس کی وجہ سے کام متاثر ہو رہا ہے۔
اٹارنی جنرل سلمان اسلم بٹ نے اپنے دلائل میں کہا کہ دھرنے والے کہہ رہے ہیں کہ ایک قانونی حکومت کو ہٹایا جائے اور انہوں نے پارلیمنٹ کے باہر ایک نام نہاد اسمبلی بھی لگا رکھی ہے۔ اس پر جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا حکومت کو ہٹانے کا طریقہ کار آئین میں دیا گیا ہے۔ آئین سے ہٹ کر کوئی طریقہ کار اپنایا گیا تو اسے لاقانونیت ہی کہا جائے گا۔ اس پر عدالت نے لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن ملتان کی درخواست پر عمران خان اور علامہ طاہر القادری کو نوٹس جاری کر کے کل تک جواب طلب کرلیا۔