اسلام آباد: نیا اسکول ایک بھی نہیں، مدرسے بہت سے
24 مارچ 2017اس سروے کے مطابق گزشتہ چار برسوں کے دوران پاکستانی دارالحکومت میں کوئی ایک بھی نیا سرکاری اسکول قائم نہیں کیا گیا لیکن اس دوران شہر میں کئی نئے مدرسے کھل گئے، جن میں سے بہت سے مبینہ طور پر غیر رجسٹرڈ ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہاں پڑھایا جانے والا نصاب عملی طور پر محکمہ تعلیم کی طرف سے نگرانی کے دائرہ کار سے باہر ہے۔
یہ سروے پاکستان میں دہشت گردی کے کئی نئے واقعات کی تازہ لہر کے بعد وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کی ہدایت پر اسلام آباد کی شہری انتظامیہ نے کروایا اور اس کا مقصد یہ معلوم کرنا تھا کہ وفاقی دارالحکومت میں دینی مدارس کی تعداد کتنی ہے۔ اس سرکاری جائزے کے بعد البتہ پاکستان میں اس بارے میں ایک بھرپور بحث شروع ہو گئی ہے کہ نئی نسل کے لیے تعلیم ریاست کی ذمے داری ہے یا سماجی، شہری اور مذہبی تنظیموں کی۔
اس سروے کے مطابق وفاقی دارالحکومت میں دینی مدارس کی کل تعداد 374 ہے، جن میں سے بہت سے مدارس قانونی طور پر کہیں بھی رجسٹرڈ نہیں ہیں۔ قریب پونے چار سو دینی مدارس کے مقابلے میں اسلام آباد میں ہائی اسکول تک کی سطح کے سرکاری اسکولوں کی تعداد 348 ہے۔ ان ساڑھے تین سو سے کم تعلیمی اداروں میں عام طور پر انٹرمیڈیٹ یا ڈگری کالج کہلانے والے وہ ہائر اسکینڈری ادارے شامل نہیں ہیں، جن کی شہر میں مجموعی تعداد 43 ہے۔
اسی سروے سے یہ پتہ بھی چلا کہ ان 374 مدرسوں میں 25 ہزار سے زائد طلبا وطالبات تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ ان میں سے 12 ہزار طلبا و طالبات کا تعلق اسلام آباد ہی سے ہے جبکہ باقی قریب 13 ہزار بچے اور نوجوان ملک کے دوسرے شہروں سے یہاں آ کر تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
’مدرسہ اللہ چلا رہا ہے‘
اس سلسلے میں ڈی ڈبلیو نے ایک مقامی مدرسے جامعہ فریدیہ سے منسلک مفتی کفایت اللہ سے تفصیلی بات چیت کی۔ جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ آیا غیر رجسٹرڈ مدارس سے باقاعدہ طور پر رجسٹرڈ مدرسوں کی ساکھ متاثر ہوتی ہے، تو انہوں نے کہا، ’’ہمارا اداراہ 40 سال پرانا ہے اور باقاعدہ رجسٹرڈ ہے۔ ہمارے کچھ ساتھی غیر رجسٹرڈ اداروں کو رجسڑ کروانے کے لیے بھی کوشاں ہیں اور ہماری ان سے کافی ملاقاتیں بھی ہوئی ہیں۔ لیکن رجسڑیشن کے ضوابط اتنے سخت ہیں کہ اب تک ایسے اداروں کی رجسٹریشن نہیں ہو پا رہی۔‘‘ مفتی کفایت اللہ نے یہ بھی کہا کہ اگر حکومت ایسے اداروں پر نظر رکھے ہوئے ہے، تو اسے ایسے غیر رجسٹرڈ اداروں پر بھی خاص طور پر نظر رکھنی چاہیے جو ’’مدارس نہیں بلکہ کچھ اور‘‘ ہی ہیں۔
اس سوال کے جواب میں کہ ان کے مدرسے کو مالی وسائل کہاں سے ملتے ہیں، مفتی کفایت اللہ نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ اس وقت ان کے مدرسے میں 1300 بچے زیر تعلیم ہیں، جن سے کوئی فیس نہیں لی جاتی۔ انہوں نے مزید کہا، ’’یہ تعلیم فی سبیل اللہ دی جاتی ہے۔ لیکن صاحب حیثیت لوگوں کو ترغیب دی جاتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کی فیس ادا کریں اور ادارے کی کچھ مالی مدد بھی کریں۔ وہ کرتے بھی ہیں، چاہے ایسا صدقے زکواة کی صورت میں کیا جائے یا خیرات کے طور پر ۔ ہمارا ادارہ تو بس اللہ چلا رہا ہے۔ کوئی پتہ نہیں کہ پیسے کہاں سے آتے ہیں۔ بس آ جاتے ہیں اور ادارہ چل رہا ہے۔‘‘
رجسٹریشن کا پیچیدہ اور طویل عمل
ڈی ڈبلیو نے اسی بارے میں جب پشاور یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر پروفیسر قبلہ ایاز سے رابطہ کیا، تو انہوں نے کہا، ’’یہ جو سروے رپورٹ آئی ہے مدارس سے متعلق، اس میں زیادہ تر ایسی مساجد بھی شامل ہیں، جن سے متصل بچوں کے لیے مدرسے بنائے گئے ہیں۔ اصول تو یہ ہے کہ جب بات کسی مدرسے کی ہو، تو حکومتی طریقہ کار کے مطابق اس کی رجسٹریشن بھی کرائی جائے۔ لیکن رجسڑیشن اتنا کٹھن اور طویل عمل بنا دیا گیا ہے، جو ایسے عام اداروں کے لیے بہت مشکل ہے۔ مساجد سے ملحقہ کئی مدرسے ایسے ہیں، جہاں مقامی بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔‘‘
پروفیسر قبلہ ایاز کے مطابق کئی مدارس نے اپنی رجسٹریشن کی درخواستیں دے رکھی ہیں، لیکن حکومتی ادارے ان درخواستوں پر ضروری کارروائی جلد مکمل نہیں کرتے۔ پشاور یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ یہی وہ اسباب ہیں، جن کی وجہ سے ایسے مدارس کی تعداد بڑھ رہی ہے اور مدرسوں کی تعداد سرکاری اسکولوں سے زیادہ ہو گئی ہے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ جگہ جگہ ایسے مدارس اور ان میں کسی سرکاری کنٹرول کے بغیر دی جانے والی تعلیم ایک تلخ حقیقت ہے، جس کے تدارک کے لیے حکومت کو اپنا فیصلہ کن کردار جلد ادا کرنا چاہیے۔
تعلیم ریاست کی آئینی ذمے داری
اس بارے میں کہ تعلیم ریاست کی ذمے داری ہے یا سماجی اور مذہبی تنظیموں کی، ماہر قانون محمد آفتاب عالم نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ آئین کے آرٹیکل پچیس اے کے مطابق ہر ایسے پاکستانی لڑکے یا لڑکی کے لیے تعلیم، جن کی عمریں پانچ اور سولہ برس تک کے درمیان ہوں، حکومت کی ذمہ داری ہے۔ آفتاب عالم نے کہا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں پر اس آئینی شق کا عملی احترام لازمی ہے اور انہیں اس امر کا پابند بھی بنایا گیا ہے کہ اس مقصد کے لیے جتنا بھی بجٹ درکار ہو، وہ باقاعدہ طور پر مختص کیا جائے۔
اسلام آباد کے ایک مدرسے المرکز الاسلامی میں زیر تعلیم دس سالہ طالب علم عبد اللہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ وہ سیالکوٹ سے کئی سال پہلے اسلام آباد آیا تھا۔ عبداللہ نے بتایا، ’’میں یہاں دینی تعلیم بھی حاصل کر رہا ہوں اور قرآن بھی حفظ کر رہا ہوں تاکہ مجھے اور میرے والدین کو ثواب ملے۔ ہم بہت غریب لوگ ہیں۔ مجھے گھر سے نکلے چند برس ہو چکے ہیں لیکن مجھے ابھی تک اپنا گھر بہت یاد آتا ہے۔‘‘
عصر حاضر کے تقاضے
اسلام آباد کے ایک پرائیویٹ اسکول کے پرنسپل انعام علی نے اسی بارے میں ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ دینی مدارس کا مقام اپنی جگہ لیکن عصر حاضر میں جدید علوم سیکھنے کی جو ضرورت ہے، اسے صرف ماڈرن اسکول ہی پورا کر سکتے ہیں۔ انعام علی کے بقول جدید علوم سائنسی حقائق اور اجتماعی سچائیوں پر مبنی ہوتے ہیں جبکہ مختلف مسالک کی نمائندہ مذہبی تنظیموں کے زیر انتظام چلنے والے مدرسوں میں بچوں کو تعلیم بھی انہی مسالک کی دینی سوچ کے مطابق دی جاتی ہے۔
پاکستانی دارالحکومت کے قریب ساڑھے تین سو سرکاری اسکولوں میں سے ایک ہائی اسکول کی ایک ٹیچر فضا علی کے مطابق تعلیم ہر پاکستانی شہری کا بنیادی حق ہے، جس کی فراہمی ریاست کی ذمے داری ہے۔ انہوں نے کہا، ’’ہمارے اسکول میں تو زیر تعلیم بچوں کی تعداد پہلے ہی گنجائش سے کافی زیادہ ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ آبادی میں اضافے کے باعث تعلیمی اداروں کی بڑھتی ہوئی طلب کو پورا کرنے کے لیے کافی تعداد میں نئے سرکاری اسکول قائم کرے۔‘‘