1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسلام آباد کی واشنگٹن کی بجائے ریاض کے لیے حمایت، زیر بحث

عبدالستار، اسلام آباد
20 اکتوبر 2022

سعودی عرب اور امریکہ کے درمیان تعلقات میں بظاہر پیدا ہونے والی تلخی کے موقع پر اسلام آباد نے ریاض کی حمایت کا اعلان کیا ہے، جسے سعودی عرب کے ساتھ یکجہتی کی ایک علامت تصور کیا جارہا ہے۔

https://p.dw.com/p/4ITle
Flaggen USA und Saudi-Arabien
تصویر: daniel0Z/Zoonar/picture alliance

پاکستان کے دفتر خارجہ نے کچھ دنوں پہلے سعودی عرب اور امریکہ کے درمیان تعلقات میں بظاہرپیدا ہونے والی تلخی کے ‌حوالے سے سعودی عرب کی حمایت کی تھی۔ ملک کے کئی حلقے اس حمایت کو مثبت قرار دے رہے ہیں ہیں لیکن کچھ اس پر تنقید بھی کر رہے ہیں۔

واضح رہے کہ امریکہ کی یہ خواہش ہے کہ تیل پیدا کرنے والے ممالک تیل کی پیداوار بڑھائیں تاکہ تیل کی قیمتیں گر سکیں لیکن روس اور سعودی عرب نے اوپیک میں تیل کی پیداوار بڑھانے سے انکار کیا، جس پر واشنگٹن ناراض ہے۔

ایسے میں پاکستان جو امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر کر رہا تھا اس نے ایک بار پھر یہ ثابت کیا ہے کہ اسٹریٹجک معاملات میں وہ امریکہ کہ ڈکٹیشننہیں لے گا۔

مثبت قدم ہے

کراچی یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کی سابق سربراہ ڈاکٹر طلعت عائشہ وزارت کا کہنا ہے کہ سعودی اقدام اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ سعودی عرب کے اسٹریٹجک مفادات تبدیل ہو رہے ہیں اور وہ اب ایک آزاد خارجہ پالیسی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم بھی اس سعودی اقدام سے سیکھیں اور اپنی خارجہ پالیسی کو آزاد اور خود مختار بنائیں۔ ہم نے ہمیشہ امریکہ پر بھروسہ کیا اور ہم ہمیشہ امریکی کیمپ میں رہے لیکن امریکہ نے نے ہمارے مفادات کا خیال نہیں رکھا۔‘‘

 ڈاکٹر طلعت عائشہ وزارت کے مطابق پاکستان نے سعودی عرب کی ایک ایسے موقع پر حمایت کی ہے جبکہ اس کے تعلقات واشنگٹن سے سرد مہری کا شکار ہو رہے ہیں: ''پاکستانیوں کو امید ہے کہ سعودی عرب میں بھی پاکستان کے مفادات کو پیش نظر رکھے گا اور پاکستان کو جن معاشی مشکلات کا سامنا ہے، ان کو دور کرنے میں ریاض اپنا کردار ادا کرے گا۔‘‘

طلعت عائشہ وزارت کے خیال میں سعودی عرب پاکستان کے محنت کشوں کو مختلف پراجیکٹس میں روزگار فراہم کر سکتا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان کو ادھار تیل دے کر بھی پاکستان کی معاشی مشکلات کو کم کرنے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔

اسٹریجک مفادات

کئی مبصرین پاکستان کی خارجہ پالیسی کو مغرب نواز قرار دیتے ہیں اور ان کا خیال یہ ہے کہ پاکستان نے ہمیشہ مغرب کے ساتھ اپنی وفاداری نبھانے کی کوشش کی ہے اور ایک آزاد خارجہ پالیسی کو تشکیل نہیں دیا گیا۔ تاہم کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ پاکستان اب اسٹریٹجک معاملات میں کسی بھی طاقت کی ڈکٹیشن لینے سے انکاری ہے اور سعودی حمایت اس کی عکاس ہے۔

اسلام آباد کی نیشنل یونیورسٹی برائے سائنس اور ٹیکنالوجی کے عالمی ادارے برائے امن و استحکام سے وابستہ ڈاکٹر بکارے نجم الدین کا کہنا ہےکہ واشنگٹن پاکستان کے ساتھ جزا اور سزا کے اصول کا اطلاق کر رہا ، جسے اسلام آباد میں پسندیدگی کی نظر سے دیکھا نہیں جاتا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''کیونکہ پاکستان نے سرد جنگ کے دوران امریکی مفادات کے لئے بہت ساری قربانیاں دی ہیں۔ اس کے بدلے میں امریکہ نے پاکستان کے مسائل حل کرنے میں یا پاکستان کی معاشی مشکلات کو کم کرنے میں مدد نہیں کی۔ اب پاکستان کے اسٹریٹجک مفادات سعودی عرب کے ساتھ ہیں اور اس کی بہت ساری وجوہات ہیں، جس میں ایک بہت اہم وجہ لاکھوں کی تعداد میں وہ پاکستانی ہیں جو وہاں کما کر پاکستان پیسہ بھیج رہے ہیں۔ یہ پیسہ پاکستانی معیشت کے لئے بہت اہم ہے۔ اس لیے پاکستان کسی بھی صورت میں مشکل وقت میں سعودی عرب کو نہیں چھوڑ سکتا۔

فطری اتحادی

اسلام آباد کی انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی سے وابستہ ڈا کٹر نور فاطمہ کا خیال ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب فطری اتحادی ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''کیونکہ سعودی عرب نے ماضی میں بھی پاکستان کی مدد کی ہے۔ لہٰذا یہ حمایت منطقی ہے لیکن ہمیں اس حمایت کے بدلے سعودی مدد لینے کی کوشش کرنی چاہیے۔ پاکستان معاشی مشکلات میں گھرا ہوا ہے اس لیے ہمیں خارجہ پالیسی اس طرح بنانا چاہیے کہ اس سے ہم معاشی مفادات حاصل کرسکیں۔‘‘

تیل کی پیداوار میں سعودی عرب اور امریکا مدِ مقابل

معاشی نقصان

تاہم کچھ ناقدین کے خیال میں اگر سعودی عرب تیل کی پیداوار کم کر کے تیل کی قیمتوں کو بڑھا رہا ہے تو اس سے پاکستان کی معیشت کو فائدہ نہیں ہوگا۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے معاشی امور کے ماہر ڈاکٹر قیس اسلم کا کہنا تھا کہ تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی حمایت معاشی نقطہ نظر سے خودکشی کرنے کے مترادف ہے: ''یہ ہم نے سعودی عرب ہی کی صرف حمایت نہیں کی ہے بلکہ تیل کی قیمتوں کو بڑھانے کی حمایت کی ہے۔ آپ کی بجلی تیل پر ہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ نہ ہونے کہ وجہ سے تیل کی درآمد زیادہ ہے۔ 20 بلین ڈالرز کا آپ تیل درآمد کر رہے ہیں۔ ایسے میں تیل کی قیمتوں کے بڑھنے کی حمایت معاشی نقطہ نظر سے دانشمدانہ نہیں ہے۔‘‘

ڈاکٹر قیس اسلم کے بقول اگر اس حمایت کے بدلے سعودی عرب ہمیں رعایتی قیمت پر تیل دیتا تو حمایت کی معاشی وجہ سمجھ میں آتی۔

پاک سعودی تعلقات

واضح رہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات ہمیشہ سے ہی بہت برادرانہ رہے ہیں۔ سرد جنگ کے دوران دونوں ممالک کمیونزم کے خلاف امریکہ کے سرمایہ دارانہ کیمپ میں تھے۔ افغانستان کے جہاد کے دوران دونوں ملکوں نے وہاں پر مختلف مجاہد گروپس کی حمایت کی۔ جب 1990 کی دہائی میں طالبان کی حکومت قائم ہوئی تو دونوں ملکوں نے اسے تسلیم کیا تھا۔
لاکھوں کی تعداد میں پاکستانیوں کو روزگار فراہم کیا بلکہ اسی کی دہائی میں جب قدامت پرست بادشاہت کو کچھ اندرونی خطرات ہوئے، تو پاکستان نے بھی اس کی مدد کی۔ پہلی جنگ خلیج کے دوران بھی پاکستان نے سعودی عرب کو اپنے تعاون کا یقین دلایا جب کہ 1998ء کے جوہری دھماکوں کے بعد جب اسلام آباد کی معاشی مشکلات بڑھیں، تو سعودی عرب نے پاکستان کا ساتھ دیا۔

تمام پاکستانی حکومتوں نے سعودی عرب سے ہمیشہ خوشگوار تعلقات قائم رکھنے کی کوشش کی ہے۔ تاہم ان تعلقات میں تھوڑی سی تلخی عمران خان کے گزشتہ دور حکومت میں آئی جب عمران خان کے کچھ بیانات کو قدامت پرست ریاست میں مثبت انداز میں نہیں لیا گیا اور اس پہ ناراضگی کے اشارے بھی ملے۔ سعودی عرب نے ایک خطیر رقم، جو پاکستان کے مرکزی بینک میں زرمبادلہ کے ذخائر کو بڑھانے کے لئے رکھوائی تھی، اس کی واپسی کا مطالبہ کیا۔ عمران خان کی حکومت کے برعکس شہباز حکومت سعودی عرب سے انتہائی قریبی تعلقات کی خواہاں ہیں۔