اسلام اور ہم جنس پرستی: امام لُڈوک محمد زاہد پھر خبروں میں
24 جولائی 2016ایک مشکل اور خطرناک جدوجہد میں مصروف لُڈوک محمد زاہد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ کیسے اُسے تب فخر اور اطمینان ہوا تھا، جب اُس کی والدہ نے اُس کی ہم جنس پرستی کو قبول کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اب اُسے مزید بیمار اور گمراہ نہیں سمجھتیں اور یہ کہ وہ بھی چاہے تو اپنی بہن ہی کی طرح اپنے لیے کوئی شوہر ڈھونڈ سکتا ہے۔
زاہد کو اپنے اہلِ خانہ کو یہ باور کروانے میں دَس سال لگ گئے کہ وہ کوئی ایسا ’ہیجڑا نہیں ہے کہ جسے ہر کوئی کتا سمجھ کر دھتکار اور مار سکتا ہو‘۔
نماز روزے کے پابند لُڈوک محمد زاہد نے 2012ء میں پیرس میں ایک مسجد قائم کی تھی، جہاں ہم جنس پرست مردوں اور عورتوں کو کھلے دل سے خوش آمدید کہا جاتا ہے۔ اس سے ایک سال پہلے اُس نے اپنے شریکِ حیات کے ساتھ شادی بھی کر لی تھی۔
کسی زمانے میں اسلامی معاشرے ہم جنس پرستی کی جانب رواداری کا مظاہرہ کیا کرتے تھے جبکہ مغربی دنیا میں ایسے افراد کو مجرم اور گمراہ سمجھا جاتا تھا۔ اب صورتِ حال اس کے برعکس ہے۔
جہاں مغربی دنیا میں ہم جنس پرستوں کے حقوق کو تسلیم کرتے ہوئے اُن کی زندگی کو آسان بنانے کے لیے قوانین متعارف کروائے جا رہے ہیں، وہاں ایران اور سعودی عرب جیسے ملکوں میں ہم جنس پرستوں کو قید کی طویل سزائیں بھی بھگتنا پڑتی ہیں۔
ڈی ڈبلیو نے قاہرہ اور بیروت میں مختلف ہم جنس پرست مردوں اور عورتوں کے ساتھ بات چیت سے یہ بات جانی ہے کہ وہاں اُن میں سے کئی اپنے عزیزوں اور رشتے داروں کے ڈر سے چُپ کر بھی زندگی گزارنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔
جہاں برلن کی النور مسجد کے ایک ترجمان نے اسلام اور ہم جنس پرستی کے موضوع پر گفتگو ہی سے انکار کر دیا وہاں جرمنی میں مساجد کے سب سے بڑے انتظامی ادارے DITIB کے ترجمان نے کہا کہ اُن کی مساجد کے دروازے ہر کسی کے لیے کھلے ہیں۔ تاہم ہم جنس پرستوں کی بڑی جرمن تنظیم LSVD کے مطابق یہ ساری کہنے کی باتیں ہیں۔
اس تنظیم کی دعوت پر برلن کا دورہ کرنے والے امام لُڈوک محمد زاہد نے بتایا کہ کیسے اُس پر وقت کے ساتھ ساتھ یہ بات واضح ہوتی چلی گئی کہ رواداری اور امن کا پیغام دینے والے اسلام میں وہ بیک وقت ہم جنس پرست بھی ہو سکتا ہے اور مسلمان بھی اور یہ کہ تب سے وہ اسلام کی عدم رواداری والی تشریح کے خلاف برسرِپیکار ہے۔