اسلام آباد میں مارگلہ کی غاریں
پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد میں مارگلہ کی پہاڑیوں میں قریب ڈھائی ہزار سال پرانی ایسی کئی غاریں ہیں، جنہیں اب کروڑوں روپے خرچ کر کے باقاعدہ طور پر بحال کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔
شاہ اللہ دتہ غاریں
اسلام آباد میں مارگلہ کی پہاڑیوں کے دامن میں شاہ اللہ دتہ نامی گاؤں میں یہ غاریں اللہ دتہ کی غاریں بھی کہلاتی ہیں، جو قریب دو ہزار چار سو سال پرانی ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ صدیوں پہلے ان غاروں کا شاید کوئی اور نام تھا لیکن مغلیہ دور کے بعد اس جگہ کا نام ایک درویش شاہ اللہ دتہ سے موسوم ہو گیا تھا۔ شاہ اللہ دتہ مارگلہ کی پہاڑیوں واقع گاؤں ایک بہت ہی خوبصورت گاؤں ہے، جس کے رہائشی بہت مہمان نواز ہیں۔
پتھریلی مٹی کی پہاڑیاں
شاہ اللہ دتہ گاؤں میں یہ غاریں دور سے دیکھنے پر صاف نظر نہیں آتیں کیونکہ زیادہ تر پتھریلی مٹی والی پہاڑیوں میں بنی ان غاروں کو صدیوں پرانے بہت سے درختوں نے قدرتی طور پر اپنے پیچھے چھپا رکھا ہے۔ مارگلہ کی پہاڑیوں کے سلسلے میں یہ غاریں خان پور کو جانے والی سڑک سے کچھ ہی دور واقع ہیں۔
خستہ دہانے اور دیواریں
ان غاروں کے دہانوں اور ان کی بیرونی دیواروں کی حالت کافی خستہ ہے، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ ہزاروں سال تک مختلف طرح کے شدید موسمی حالات نے ان پر کیا اثرات مرتب کیے ہیں۔ ان غاروں کو قریب سے دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ ان تاریخی باقیات کو محفوظ کرنے کی کتنی اشد ضرورت ہے۔
دعوت اور پراسراریت
یہ غاریں دور سے دیکھنے والوں کو قریب آنے کی دعوت دیتی محسوس ہوتی ہیں اور قریب جائیں تو دیکھنے والوں پر تاریخ کی پراسراریت غالب آ جاتی ہے۔ سن اٹھارہ سو پچاس سے یہ غاریں ایک خاندان کے زیر انتظام ہیں۔ ان غاروں کی دیکھ بھال اس خاندان کے موجودہ سربراہ محمد اسماعیل کرتے ہیں، جو یہ کام اپنی نوجوانی کے سالوں سے کر رہے ہیں۔
سیاحوں کے لیے پرکشش
ان قدیم غاروں کو دیکھنے کے لیے چھٹیوں کے دوران بڑی تعداد میں مقامی سیاح قریب سات سو سال پرانے گاؤں شاہ اللہ دتہ کا رخ کرتے ہیں۔ ان سیاحوں کے لیے محمد اسماعیل نے وہاں ایک چھوٹا سا چائے خانہ بھی کھول رکھا ہے۔ ان غاروں کو دیکھنے کے لیے آنے والے غیر ملکی مہمانوں میں اکثریت بدھ مت کے پیروکاروں کی ہوتی ہے، جس کی وجہ کچھ ہی فاصلے پر موجود ایک قدیم بدھ اسٹوپا کی باقیات بھی ہیں۔
گرمی کم کرنے کی کوشش
اس تصویر میں غاروں کے منتظم محمد اسماعیل ایک گرم دن کی سہ پہر پانی چھڑک کر زمین ٹھنڈی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ قریب ہی ایک غار کے دہانے پر ایک رنگدار چادر بچھی ہے، جہاں یا تو محمد اسماعیل خود آرام کر لیتے ہیں یا وہاں آنے والے مہمان کچھ دیر کے لیے بیٹھ جاتے ہیں۔ اب اسلام آباد کے ترقیاتی ادارے سی ڈی اے نے ایک منصوبہ تیار کیا گیا ہے، جس کے تحت ان غاروں کو محفوظ کرتے ہوئے انہیں بحال کیا جائے گا۔
مستقبل کے بارے میں پرامید
محمد اسماعیل نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے ماضی میں بھی ان غاروں کی بحالی کے منصوبے بنائے تھے لیکن عملی نتیجہ کچھ نہ نکلا۔ اس مرتبہ لیکن وہ پرامید ہیں کہ مارگلہ کی پہاڑیوں میں ان تاریخی غاروں کو بحال کرتے ہوئے انہیں سیاحوں کے لیے پرکشش بنا جائے گا، جس سے مقامی سطح پر ترقی میں بھی مدد ملے گی۔
غار کا اندرونی منظر
اس تصویر میں شاہ اللہ دتہ کی غاروں میں سے ایک کا اندرونی منظر دیکھا جا سکتا ہے، جس سے واضح ہوتا ہے کہ دو ہزار سال سے زائد کے عرصے میں یہ جگہ شکست و ریخت کے کس عمل سے گزری ہے۔ کئی جگہوں پر بوسیدہ اور غیر محفوظ قدرتی ڈھانچوں کی وجہ سے ان غاروں میں داخل ہونا خطرے سے خالی نہیں ہے۔
بحالی اور صفائی کی ضرورت
ان غاروں میں سے چند ایک کی بیرونی دیواروں میں سوراخ بھی ہیں۔ یہ بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ مستقبل میں ان غاروں کو ممکنہ انہدام سے بچانا اور وہاں صفائی اور دیکھ بھال کے معیاری انتظامات بھی لازمی ہوں گے۔ کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) نے ان غاروں کی بحالی کے لیے چار کروڑ روپے مالیت کا ایک منصوبہ تیار کیا ہے، جس پر اسی مالی سال کے دوران عمل شروع ہو جائے گا۔
چشمے پر تالاب
محمد اسماعیل کے مطابق ماضی میں اس علاقے کا ایک نام گڑیالہ بھی تھا، جہاں کبھی تیرہ کنال پر پھیلا ہوا پھل دار درختوں والا ایک باغ تھا، جو ’بدھو کا باغ‘ کہلاتا تھا۔ یہ باغ سی ڈی اے نے 1983 میں اپنی ملکیت میں لیا، جو اب ختم ہو چکا ہے۔ تصویر میں نظر آنے والا تالاب غاروں کے قریب سے گزرنے والے ایک قدیم چشمے کی گزرگاہ پر بنایا گیا ہے۔ یہی چشمہ اور تالاب پورے گاؤں کو سیراب کرتا ہے۔
منہ چڑاتا ہوا سنگ بنیاد
پوٹھوہار کے علاقے میں شاہ اللہ دتہ گاؤں ایک ایسے راستے پر واقع ہے، جسے صدیوں تک شاہی قافلے اور فوجی لشکر ہندوستان اور افغانستان کے درمیان آمد و رفت کے لیے استعمال کیا کرتے تھے۔ دو ہزار گیارہ میں سی ڈی اے نے ’سادھو باغ‘ کی بحالی کا ایک منصوبہ بنایا تھا۔ اس منصوبے کا سنگ بنیاد اس ادارے کے ایک چیئرمین نے رکھا تھا، لیکن بعد میں اس پر عمل درآمد روک دیا گیا تھا۔
جون کے مہینے میں کام کا آغاز
ان غاروں کی بحالی کے منصوبے کے منتظم عامر علی احمد کےبقول اس پراجیکٹ پر کام موجودہ مالی سال ختم ہونے سے قبل شروع کر دیا جائے گا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’یہ غاریں ہمارا تاریخی ورثہ ہیں۔ انہیں بہت پہلے محفوظ کیا جانا چاہیے تھا۔ ماضی میں کئی منصوبے بنے لیکن ان پر عمل نہ ہو سکا۔ اب ہم نے بڑی منظم منصوبہ بندی کی ہے۔ ہم ان غاروں کی بحالی کے ذریعے سیاحت کو بھی فروغ دینا چاہتے ہیں۔‘‘